بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قیامت کے روز کس کے نام سے پکارا جائے گا؟


سوال

قیامت کے دن کس کے نام سے  پکارا جائے گا والد یا والدہ کے نام سے ؟

جواب

قیامت کے دن انسان کو اس کے اپنے  نام سے اور اس کے والد کے نام سے پکارا جائے گا ، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ’’حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء  کے ناموں سے پکارے جاؤگے، لہٰذا اپنے نام اچھے رکھا کرو۔‘‘

’’عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ اَبِي زَکَرِيَّا عَنْ اَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وسلم : إِنَّکُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِکُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَ کُمْ‘‘. 

 (مسند احمد بن حنبل، 5: 194، رقم: 21739 ۔۔۔۔ سنن أبی داوٗد، 4: 287، رقم: 4948)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث مبارک میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

’’إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُـلَانِ بْنِ فُـلَانٍ‘‘.

ترجمہ: ’’عہد شکن کے لیے قیامت کے روز ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔‘‘

 (بخاري، الصحيح، 5: 2285، رقم: 5823، دار ابن کثير اليمامة بيروت)

ابن بطال اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

’’وفي قوله: ’’هذه غدرة فلان بن فلان‘‘ ردّ لقول من زعم أنه لایدعی الناس یوم القیامة إلا بأمهاتم؛ لأن في ذلک ستراً علی آبائهم ...‘‘
ترجمہ: ’’رسول اللہﷺ کے اس فرمان: ’’هذه غدرة فلان بن فلان‘‘ میں ان لوگوں کے قول کاردّ ہے جن کاخیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں ہی کے نام سے بلایا جائے گا، کیوں کہ اس میں ان کے باپوں پرپردہ پوشی ہے۔ ‘‘

عوام میں جو بات مشہور ہے کہ قیامت کے دن والدہ کے نام سے پکارا جائے گا، اور اس پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر باپ کے نام سے پکارا جائے گا تو حضرت عیسی علیہ السلام کو کس نام سے پکارا جائے گا، یہ بات بھی غلط ہے اور دلیل بھی درست نہیں ہے، کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے نہ تو والد ہیں اور نہ ہی والدہ۔ جیسے انہیں پکارا جائے گا، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی پکاردیا جائے گا، عمومی حکم میں اکثر و بیش تر مستثنیات ہوتے ہیں، یہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں