بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر موبائل خریدنے کا حکم


سوال

قسطوں پر موبائل لینا کیسا ہے؟ مفتی حضرات رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے قسطوں پر  موبائل ہو یا کوئی اور چیز ہو ان کی   خرید وفروخت  جائز ہے، لیکن اس  میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

1.قسط کی رقم متعین ہو۔

2.مدت متعین ہو۔

3.معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

4 .عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو ۔

5. ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے۔

6. جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

ان  تمام شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے، لیکن اگر ان شرائط کی رعایت نہ ہو تو جائز نہیں ہوگا۔

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے :

"‌البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط."

(الكتاب الأول البيوع، الفصل الثانی  في بيان المسائل  المتعلقة بالنسيئة و التأجيل، المادة: 245،246،ج:1، ص:100،  ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"تأجيل الثمن  إلى مدة غير معينة كإمطار السماء يفسد البيع."

(الكتاب الأول البيوع، الفصل الثانی  في بيان المسائل  المتعلقة بالنسيئة و التأجيل، المادة: 248،ج:1، ص:101،  ط:رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا كان عليه ألف درهم نجية مؤجلة فصالحه على ألف سود حالة فإنه لا يجوز كذا في الذخيرة.‌لو ‌كانت ‌له ‌ألف مؤجلة فصالحه على خمسمائة حالة لا يجوز كذا في الهداية."

(كتاب الصلح، الباب الثاني في الصلح في الدين، ج:4، ص:232، ط:دارالفكر)

فقہ البیوع علی المذاہب الاربعہ میں ہے:

"وكما يجوز ضرب الأجل لأداء الثمن دفعة واحدة، كذلك يجوز أن يكون أداء الثمن بأقساط، بشرط أن تكون آجال الأقساط و مبالغها معينة عند العقد، و قد يسمى: البيع بالتقسيط، و هو نوع من البيع المؤجل، و الأقساط قد تسمى نجوما."

(الباب الخامس من حيث طريق وفاء العوضين، ج:1، ص:525، ط:مكتبة  معارف القرآن)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144505100352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں