قسطوں کے (سامان کے)لین دین کے متعلق رہنمائی فرمائیں ۔
واضح رہے کہ ہر شخص کے لیے اپنی مملوکہ چیز کو اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد اور ادھار دونوں طرح فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح سامان فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے ، اسی طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے، قسطوں پر خرید وفروخت میں درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے:
عقد(معاملہ کرنے) کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو،مدت اورقسط کی رقم بھی متعین ہو اور ایک شرط یہ بھی ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا، ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
" لأن للأجل شبها بالمبيع. ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجله."
(کتاب البیوع، باب المرابحة، 142/5، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو اشترى شيئا نسيئة لم يبعه مرابحة حتى يبين؛ لأن للأجل شبهة المبيع وإن لم يكن مبيعا حقيقة؛ لأنه مرغوب فيه ألا ترى أن الثمن قد يزاد لمكان الأجل."
(کتاب البیوع، 224/5، ط: دار الکتب العلمیة)
"شرح المجلة لرستم باز(المادة: 245،246)" میں ہے:
"البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح، يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط… لأن جهالته تفضي إلى النزاع فيفسد البيع به."
( الكتاب الأول في البيوع، الباب الثالث ف،100/1، ط: فاروقيه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144406102270
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن