بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر گھر خریدنے کے بعد آگے بیچنا


سوال

شاہد نے عابد سے ایک گھر کا سودا کیا 50 لاکھ میں، اس کا بیانہ ادا کیا اور بقیہ رقم  3  مہینے میں دینے کا معاہدہ کیا ۔ اس گھر کا سودا شاہد نے آگے زاہد سے 60لاکھ میں کرلیا جو کہ نقد تھا / یا ادھار تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ جائز ہوا یا نہیں؟ اگر نہیں تو  کیا وہ گھر اور اس کا منافع حرام ہوگا؟  اگر ایسی آمدنی والے شخص کے ساتھ کوئی بھی کاروبار کیا جائے تو  وہ حلال و طیب ہوگا یا نہیں؟  کیا کاروبار میں اس شخص کی لگائی ہوئی رقم کو اس کی منافع کی رقم (جو اس نے گھر بیچ کر حاصل کی تھی) کے بجائے اس کی اصل رقم تصور کیا جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعتًا شاہد نے  عابد سے گھر کا سودا  50  لاکھ  میں کیا  اور خرید  و  فروخت کامعاملہ  مکمل ہوگیا  تھا تو گھر شاہد کی ملکیت میں آگیا تھا، اگرچہ شاہد نے ابھی تک اس گھر  کی مکمل رقم ادا نہ کی ہو ،اس کے بعد شاہد کا اس گھر کو آگے  60 لاکھ میں بیچنا درست ہے، اور اس پر جو نفع حاصل ہوا ہے وہ حلال ہے ۔ اور ایسے شخص کے ساتھ اس طرح کے معاملے میں انویسٹمنٹ کے لیے رقم لگائی جاسکتی ہے۔

وفي الفتاوى الهندية:

"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتًّا." (3/ 3ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں