بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر پلاٹ خرید کر واپس کرنے کی صورت میں شرعی تفصیل


سوال

 ایک آدمی نے ایک سوسائٹی میں قسطوں پر ایک پلاٹ خریدا،کافی قسطیں اپنے وقت پر جمع کیں ،اب وہ کسی عذر کی بناء پر اپنا پلاٹ کینسل کرانا چاہتا ہے، لیکن کینسلیشن کی صورت میں کیا سوسائٹی والوں کا جمع شدہ اقساط سے 20 ٪ فیصد یا 10 ٪ فیصد کٹوتی جائز ہے یا نہیں ؟

اور کیا  جمع شدہ رقم اقساط کی رقم کو کینسلیشن کی صورت میں بغیر مشتری کی رضامندی کے تاخیر کرنا اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے جب دوشخصوں کے درمیان کسی چیزکی خرید و فروخت کامعاملہ مکمل ہوجائے اورپھرمشتری یابائع میں سے کسی کوکوئی پچھتاواہوجائے اورکسی مصلحت سے معاملہ فسخ کرناچاہے اوردونوں فریق اس پررضامندہوں توشریعت کی اصطلاح میں اسے اقالہ کہتے ہیں اورحدیث شریف میں اقالہ کرنے والے کے بارے میں خوش خبری آئی ہے ۔

لہذاصورت مسئولہ میں اگرمذکورہ شخص پلاٹ  کوواپس کرناچاہےتو دونوں فریق اقالہ کرتے ہوئے اس معاملہ کوختم کردیں توبائع پراس  کی ادا کی گئی قسطیں پوری کی پوری  واپس کرنا لازم ہے ، اورقیمت کی واپسی میں کٹوتی کرناجائز نہیں ہے،لیکن اگربیچنے والا واپس لینے پر راضی نہ ہو، تو اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا،نیز جب  سودا  ختم ہوجائے اور بیچنے والے کے پاس فوری ادائیگی کی صورت نہ ہو تواسے ادائیگی کے لیے کچھ مہلت دے ، اور  اگر ادائیگی کا انتظام ہو تو بلاوجہ رقم واپس کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بلا عذر ٹال مٹول کرنے سے وہ گناہ گار ہوگا۔

نیز اگر یہ شرط عقد ہوتے ہی لگایا تھا، کہ واپسی(کینسلیشن) کی صورت میں کٹوتی ہوگی،یہ شرط لگا ناہی لغو ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

حدثنا زياد بن يحيى أبو الخطاب قال: حدثنا مالك بن سعير قال: حدثنا الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أقال مسلما، أقاله الله عثرته يوم القيامة»

(سنن ابن ماجه، باب الإقالة، ج: 2، ص: 741، رقم الحدیث: 2199، ط:  دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي)

ترجمہ :حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کسی مسلمان سے اقالہ کرلے (یعنی بیچی ہوئی چیز واپس لے لے) اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی لغزشوں سے درگزر فرمائیں گے۔

دوسری حدیثِ مبارک  میں ہے:

"(عن أبي هريرة )أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "مطل ‌الغني ‌ظلم."

ترجمہ:"رسول  کریم ﷺ نے فرمایا: صاحبِ استطاعت کا  (ادائیگیِ قرض میں) تاخیر کرنا ظلم ہے۔" 

(كتاب البيوع، باب الإفلاس والنظائر، الفصل الأول، ج:1، ص:251، ط:قديمي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحكمه ثبوت الملك.

(قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن."

(کتاب البیوع، ج:4، ص:506، ط:سعید)

العنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:

"وإذا حصل الإيجاب والقبول ‌لزم ‌البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية."

(‌‌كتاب البيوع، ج:6، ص:257، ط:دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌وأما ‌حكمه ‌فثبوت ‌الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا."

(کتاب البیوع ، الباب الأول في تعريف البيع .... ج:3، ص:3،  ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافا للشافعي

و في الرد : (قوله : وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئا وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لا يجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالا أو مؤجلا هداية.......(قوله قبل نقد كل الثمن الأول) قيد به؛ لأن بعده لا فساد، ولا يجوز قبل النقد، وإن بقي درهم. وفي القنية: لو قبض نصف الثمن ثم اشترى النصف بأقل من نصف الثمن لم يجز بحر قلت: وبه يظهر أن إدخال الشارح لفظة كل لا محل له؛ لأنه يفهم أن قبل نقد البعض لا يفسد وهو خلاف الواقع. والحاصل أن نقد كل الثمن شرط لصحة الشراء لا لفساده؛ لأنه يفسد قبل نقد الكل أو البعض. فتأمل".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:73، ط: سعید)

فیہ ایضاً:

"(‌تصح ‌بمثل ‌الثمن الأول وبالسكوت عنه) ويرد مثل المشروط ولو المقبوض أجود أو أردأ،يكون فسخا ولذا يثبت للبائع رده على بائعه بخلاف ما إذا كان بالتراضي فإنه بيع جديد.(قوله: لم تعد الكفالة فيهما) أي في الإقالة والرد بعيب بقضاء اهـ. ح. فتحصل أن الأجل والكفالة في البيع بما عليه لا يعودان بعد الإقالة وفي الرد بقضاء في العيب يعود الأجل، ولا تعود الكفالة اهـ. ط. قلت: ومقتضى هذا أنه لو كان الرد بالرضا لا تعود الكفالة بالأولى، وذكر الرملي في كتاب الكفالة أنه ذكر في التتارخانية عن المحيط، عدم عودها سواء كان الرد بقضاء أو رضا وعن المبسوط أنه إن كان بالقضاء تعود وإلا فلا."

(كتاب البيوع ،‌‌باب الإقالة ، ج:5، ص:125، ط: دار الفكر)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"فعلى هذا إذا تقايل المتبايعان البيع بعد قبض ثمن المبيع فيجب رد مثل الثمن أو مقداره الذي اتفق عليه حين العقد.

ولو كان المقبوض أجود أو أدنى من ذلك ولا فائدة في أن يشترط حين الإقالة أن يدفع الثمن من جنس آخر أو ينقص للندامة أو لأسباب أخرى أو أن يزاد الثمن أو يرد بدل غيره أو يؤجل كما أن السكوت حين الإقالة عن الثمن لا يضر شيئا يعني أن كل ما يشترط في الإقالة من ذلك فهو باطل والإقالة صحيحة؛ لأن حقيقة الفسخ رفع الأول بحيث يكون كأن لم يكن فعلى ذلك تثبت الحال الأولى وثبوت هذه الحال يقتضي رجوع عين الثمن لمالكه الأول وعدم دخوله في ملك البائع رد المحتار.

مثال ذلك: إذا باع رجل من آخر مالا بخمسين ريالا وبعد أن قبض الثمن تقايلا البيع واتفقا على أن يدفع البائع للمشتري خمسة وأربعين ريالا عوضا عن الثمن الذي قبضه فالإقالة صحيحة وعلى البائع أن يرد الخمسين ريالا للمشتري دون زيادة ولا نقصان."

(البيوع،الفصل الرابع فی اقالة البيع،حكم الاقالۃ، ج:1، ص:172، ط:دار الجيل)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) ‌شرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا أو على أن يقرضه المشتري قرضا أو على أن يهب له هبة أو يزوج ابنته منه أو يبيع منه كذا ونحو ذلك أو اشترى ثوبا على أن يخيطه البائع قميصا أو حنطة على أن يطحنها أو ثمرة على أن يجذها أو ربطة قائمة على الأرض على أن يجذها أو شيئا له حمل ومؤنة على أن يحمله البائع إلى منزله ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الربا."

(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع، ج:5، ص:  169، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

(قوله: هي فسخ في حق المتعاقدين بيع في حق ثالث) ، وهذا عند أبي حنيفة إلا إن تعذر جعلها فسخا بأن ولدت المبيعة بعد القبض أو هلك المبيع فإنها تبطلويبقى البيع على حاله أطلقه فشمل ما إذا كان قبل القبض أو بعده، وروي عن أبي حنيفة أنها فسخ قبل القبض بيع بعده كذا في البدائع. (قوله: و تصح بمثل الثمن الأول وشرط الأكثر أو الأقل بلا تعيب، وجنس آخر لغو، ولزمه الثمن الأول)

(کتاب البیع، باب الإقالة، ج: 6، ص: 112 ،  ط: دار الكتاب الإسلامي)

احسن الفتاوی میں ہے:

"قسطوں پر خرید و فروخت:

"سوال :مشین،  ریڈیو یا پنکا  وغیرہ دکاندار سے قسطوں پر خریدنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ لینے والے کو اس میں آسانی ہے مگر قسطوں پر ادھار لینے میں نقد لینے سے کچھ زیادہ رقم ادا کرنا پڑتی ہے اس میں یہ بھی شرط ہے کہ تمام قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں سابق اقساط  ضبط کر کے مبیع واپس لے لی جائے گی:بینواوتوجروا

الجواب باسم ملھم الصواب

ادھار کی وجہ سے زیادہ قیمت لینا جائز ہے،  مگر تمام اقساط ادا نہ کرنے کی صورت میں مبیع کی واپسی اور اداکردہ قسط ضبط  کرنے کی شرط فاسد ہے،  اس لیے یہ معاملہ جائز نہیں،  اللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔"

(احسن الفتاوی، ج:6، ص:519، ط:سعید)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"قسط لیٹ ہو نے کی وجہ سے مبیع واپس نہیں ہو سکتا

سوال:ـ۔گاڑیوں کی تجارت کرنے والے بعض لوگ قسطوں میں گاڑی فروخت کرتے وقت یہ شرط لگاتے ہیں کہ اگر مشتری نے اتنی مدت میں تمام قِسطیں ادا نہ کیں تو ادا کی گئی اقساط ضبط متصور ہوں گی اور مبیعہ میری ملکیت ہوگا،اور دونوں (بائع اور مشتری )ان شرائط پر دستخط کرتے ہیں ،دریافت طلب بات یہ ہے،بعض اقساط لیٹ ہوجانے یعنی عدم ادائیگی کی صورت میں بائع مبیعہ کو واپس لینے کا شرعاً مجاز ہے یا نہیں؟

الجواب:۔خریدو فروخت میں ایجاب و قبول کرلینے سے بیع تام ہوجاتی ہے، اس کے بعد فریقین میں سے کسی کو بھی شرعاً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فریق ثانی کی رضا مندی کے بغیر مبیعہ پر ہاتھ ڈالے۔ اسی بنا ء پر صورتِ مسئولہ میں اس قسم کی شرائط طے کرنا لغو ہے، رقم بدستور مشتری کے ذمّے واجب الادا ہے، اور اگر وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ہو تو قانون کا سہارا لے کر رقم وصول کی جا سکتی ہے، اس طرح لیت و لعل کرنے سے اس کے ذمہ باقی اقساط ختم نہیں ہو جاتیں اور نہ بائع بغیر اس کی رضا مندی کے مبیعہ واپس لے سکتا ہے۔

(فتاوی حقانیہ، ج:6، ص:106، ط:دارالعلوم  حقانیہ)

وفیہ ایضاً:

سوال:۔ بائع اور مشتری کے درمیان باقاعدہ عقد(سودا) ہوجانے کے بعد اگر ایک فریق واپسی کی خواہش کرے لیکن دوسرا فریق اس پر رضامند نہ ہو، تو کیا واپسی کا خواہش مند جبراً اپنا حقِ واپسی منواسکتا ہے یا نہیں؟

الجواب:۔باقاعدہ ایجاب و قبول کے بعد عقدِ بیع لازم ہوکر کسی ایک کو جب عقد ختم کرنے کا حق حاصل نہیں، تاہم اگر اقالہ کی صورت ہو تو اس کے لیے طرفین کی رضامندی ضروری ہے۔

لما قال العلامة ابن عابدین رحمه اللّٰہ: من شرائطھا اتحاد المجلس ورضا المتعاقدین لان الکلام فی رفع عقد لازم وامّا رفع مالیس بلازم فلمن له الخیار یعلم صاحبه لابرضاہ بحر۔ (ردالمحتار:ج؍۵،ص؍۱۲۱، باب الاقالة)

قال فی الھندیة:وشرط صحة الاقالة رضاء المتقائلین۔(الفتاوٰی الهندیة:ج؍۳،ص۱۵۷۳،الباب الثالث عشرفی الاقالة)

ومثلہ فی شرح مجلة الاحکام لسلیم رستم باز،تحت المادۃ،۱۹۰،ص؍۹۲۔

"اقالہ میں قیمت کم کرنے کی شرط لگانا"

سوال:۔ انعقادِ بیع کے بعد اگر طرفین اس شرط پر بیع فسخ کرنا چاہیں کہ مشتری بائع کو ادا کی ہوئی رقم میں سے کچھ چھوڑے گا، کیا شرعاً دونوں کے لیے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:۔بیع فسخ کرتے وقت اگر بائع اور مشتری قیمت کم کرنے کی شرط لگاتے ہیں تو دونوں کی رضامندی سے بیع فسخ ہوکر بائع مشتری کو پوری رقم واپس کرے گا، رقم منہا کرنے کی شرط کا لعدم ہوکر باطل رہے گی۔

لما قال العلامة علی بن ابی بکر المرغینانی رحمه اللّٰہ: الاقالة جائزۃ فی البیع بمثل الثمن الاوّل فان شرط اکثر منه او اقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الاول۔ (الھدایة:ج؍۳،ص؍۷۱، باب الاقالة)

قال العلامة سلیم رستم بازرحمه اللّٰہ:الثالث انھالاتفسدالشرط الفاسدوان لم تصح تعلیقھا به بل یکون الشرط لغوًافلوتقایلاعلٰی ان یوخرالمشتری الثمن سنة اوعلٰی ان یحط منه خمسین صحت الاقالة لاالتاخیروالحط۔(شرح مجلة الاحکام لسلیم رستم باز،ص؍۹۱،المادۃ۔۱۹۰،الفصل الخامس فی الاقالة)

ومثله فی الھندیة:ج؍۳،ص؍۱۵۶،الباب الثالث عشرفی الاقالة۔

"فروخت شدہ چیز کو کم قیمت پر واپس لینا "

"سوال:۔ ایک شخص نے کسی کو قرض پراونٹ فروخت کیا، قیمت کی ادائیگی کے وقت مشتری نے ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے مبیع واپس کرنا چاہا،اب بائع مشتری سے اونٹ اسی قیمت پریا اس سے کم قیمت پر واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب :۔صورتِ مذکورہ میں باقاعدہ طور پر ایجاب و قبول ہوکر بیع قطعی ہوچکی ہے جس سے مبیعہ بائع کی ملکیت سے نکل کر مشتری کی ملکیت میں آچکا ہے لیکن اب اگر مشتری بیع فسخ کرکے مبیعہ واپس کرنا چا ہتا ہے تو بائع کو مبیعہ سابقہ قیمت پر یا اس سے زائد قیمت پر واپس لینے میں کوئی حرج نہیں تاہم یہ جائز نہیں کہ بائع مبیعہ کو کم قیمت پر واپس لے۔ 

لما قال العلامة ابن عابدین رحمه اللّٰہ: لو باع شیئًا اصالة بنفسه او وکیله او وکالة عن غیرہ لیس له شراء ہ بالاقل لالنفسه ولالغیره۔ (ردالمحتار:ج؍۵،ص؍۷۴، باب البیع الفاسد ، مطلب فی التداوی بلبن البنت۔۔۔الخ)

قال العلامةطاھربن عبدالرشیدالبخاریؒ:شراء ماباع با قل مماباع من الّذی اشتراہ اومن وارثه قبل نقدالثمن لنفسه اولغیرہ۔۔۔۔۔فاسدعندنا۔(خلاصة الفتاوٰی:ج؍۳،ص؍۴۱،کتاب البیوع،الفصل الرابع فی البیع الفاسدواحکامه)

ومثله فی الھندیة:ج؍۳،ص؍۱۳۴،الباب العاشر فی الشروط التی تفسد والتی لاتفسدہ۔"         

(فتاوی حقانیہ، ج:6، ص:132-133، ط:دارالعلوم  حقانیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100954

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں