بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ کی شرط کے ساتھ قسطوں پر مکان خریدنا


سوال

قسطوں پر مکان خریدنا کیسا ہے  جس میں یہ بھی شرط لگائی جاتی ہے کہ اگر بروقت قسط کی ادائیگی نہ کی گئی تو قیمت میں اضافہ لگا دیا جائے گا؟ یعنی مثلًا اگر ایک مکان ایک کروڑ کا ہے تو  قسط شارٹ ہونے کی صورت میں مکان ایک کروڑ پانچ لاکھ کا پڑے گا !

جواب

قسطوں پر مکان یا کوئی اور چیز اس صورت میں خریدنے کی شرعاً اجازت ہے کہ خریداری کے وقت عاقدین اس چیز  کی قیمت مقرر کرلیں اور کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر   کی وجہ سے کسی قسم کا اضافہ وصول نہ کیا جائے۔ صورتِ مسئولہ میں جب  معاہدے  میں  یہ شرط ہے کہ  اقساط میں سے اگر کوئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع نہیں کرائی گئی تو خریدار  مقرر ہ جرمانہ ادا کرنے کا پابند ہو گا،تو اس شرط کے ساتھ قسط پر مکان لینا جائز نہیں۔

المبسوط للسرخسي (13/ 7):

"و إذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 158):

" و كذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول، وقيل: هو الشرطان في بيع وقد روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «نهى عن شرطين في بيع» و لو باع شيئًا بربح ده يازده ولم يعلم المشتري رأس ماله فالبيع فاسد حتى يعلم فيختار أو يدع هكذا روى ابن رستم عن محمد؛ لأنه إذا لم يعلم رأس ماله كان ثمنه مجهولا وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 61):

"و في شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ. و الحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں