بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں میں گاڑی خریدنے کا حکم


سوال

میں گاڑی خریدنا چاہتا ہوں، نقد پر خریدنے کی ابھی گنجائش نہیں ہے،اگر ایک گاڑی 25 لاکھ کی ہے، اور کوئی مجھے خرید کر 28 لاکھ کی قسطوں میں دیتا ہے اور شرائط بھی طے کرلیتا ہے، پہلے سے طے کرلیا جائے گا، کہ معاملہ قسطوں پر ہوگا، ہر قسط کی مالیت طے کرلی جائے گی کتنی اقساط ہوں گی؟ یہ بھی طے کرلیا جائے گا اقساط میں تاخیر کی وجہ سے جرمانہ نہیں لیا جائے گا ۔

کیا ان شرائط میں یہ سودا سود سے پاک ہوگا یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کاقسطوں پر گاڑی  خریدنا (خواہ نقد کے مقابلے میں زیادہ قیمت پر ہی کیوں نہ ہو ) درست ہے، بشرطیکہ کل قیمت  اور ادھار کی کل مدت  اور اقساط متعین کردی جائیں،  اور گاڑی  کسی سودی ادارے سے نہ خریدی جائے، نیز قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر اضافی رقم ادا کرنے کی شرط نہ ہو۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"و إذا عقد العقد علی أنه إلی أجل کذا بکذا، و بالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فهو فاسد … وهذا إذا افترقا علی هذا، فإن کان یتراضیان بینهما ولم یتفرّقا حتی قاطعه علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیه فهو جائز الخ ."

(كتاب البيوع باب البيوع الفاسدة ،ج:13 ،ص:8 ،ط:دارالفكر)

بدائع صنائع میں ہے:

"وکذا إذا قال: بعتک هذا العبد بألف درهم إلی سنة أو بألف وخمسة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجهول، ۔۔۔۔۔فإذا علم ورضی به جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد، وقد زالت في المجلس وله حکم حالة العقد، فصار کأنه معلوم عند العقد."

( کتاب البیوع،جهالة الثمن،5/158، ط:ط:رشيديه)

ہدایہ میں ہے:

"لأن للأجل شبها بالمبيع؛ ألا يرى أنه ‌يزاد ‌في ‌الثمن لأجل الأجل."

(کتاب البیوع ،،3/58،ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506100361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں