بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر سامان فروخت کرنا اور جرمانہ کی شرط لگانا


سوال

قسطوں پر سامان لے کر دینا کیا جائز ہے؟ اور جب سودا طے ہوتا ہے تو لکھا جاتا ہے کہ قسط اگر وقت پر نہیں دو گے تو ساتھ جرمانہ لگے گا،  کیا یہ ٹھیک ہے ؟

جواب

قسطوں پر خریدوفروخت  جائز  ہونے کےلیے   درج ذیل  شرائط کی رعایت ضروری ہے:

1۔  معاملہ متعین ہو یعنی سودا نقد کیا جارہا ہے یا ادھار۔

 2۔   مدت متعین ہو۔

3۔  مجموعی قیمت (اور قسط کی رقم) متعین ہو۔

4۔  کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اگر معاملہ کرتے وقت یہ شرط لگائی گئی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

صورتِ  مسئولہ میں قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں  چوں ک ہ جرمانہ کی ادائیگی کی شرط لگائی گئی ہے، لہذا مذکورہ سودا شرعًا  فاسد  و ناجائز ہوگا۔

مجلة الأحكام العدلية میں ہے:

"(الْمَادَّةُ 157) التَّقْسِيطُ تَأْجِيلُ أَدَاءِ الدَّيْنِ مُفَرَّقًا إلَى أَوْقَاتٍ مُتَعَدِّدَةٍ مُعَيَّنَةٍ.

(الكتاب الأول في البيوع، المُقَدِّمَةٌ: فِي بَيَانِ الِاصْطِلَاحَاتِ الْفِقْهِيَّةِ الْمُتَعَلِّقَةِ بِالْبُيُوعِ، 1 / 33، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

( كتاب الحدود، باب التعزير، 4 / 61، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200437

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں