میرا ایک پلاٹ حکومت کی اسکیم میں انسٹالمینٹ پر نکلا ہے۔ جس کی اقساط تین سال میں ادا ہوں گی۔ میں نے یہ پلاٹ بچت کی نیت سے لیا ہے۔
میرا یہ پلاٹ مارچ2021 میں نکلا تھا ،اس کی ایڈوانس قسط میں نے جولائی 2020 میں ادا کی تھی۔ زکاة کا کیا حکم ہوگا۔
واضح رہے کہ قسطوں پر جو پلاٹ خریدا جائے ، خریدنے والا اس پلاٹ کا مالک بن جاتا ہے ، چاہے قبضہ ملا ہو یا نہ ملا ہو اور چاہے قسطیں باقی ہوں یا نہ ہوں،اور اگر پلاٹ تجارت یا رقم محفوظ کرنے کی نیت سے خریدا جائے تو اس کی موجودہ قیمت پر زکوۃ واجب ہوتی ہے ۔
لہذا صورت مسئولہ میں جب آپ نے مذکورہ پلاٹ تجارت (بیچ کر نفع کمانے) یا رقم محفوظ کرنے کی نیت سے قسطوں پر لیا ہے تو اس پر زکات واجب ہوگی، یعنی اس کی موجودہ قیمتِ فروخت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کرنا لازم ہوگا، البتہ واجب الادا اقساط میں سے جن قسطوں کی ادائیگی زکات کے رواں سال میں واجب ہوگئی تھی، اور وہ ادا نہیں کی گئی تو اس کو کل رقم سے منہا کرنے کے بعد بقیہ رقم کی زکات ادا کی جائے گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
" الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية ."
(کتاب الزکوۃ ، الفصل الثانی فی العروض ، ج:۱،ص:۱۷۹، ط:رشیدیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
" (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)؛ لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه (نام ولو تقديراً) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه (فلا زكاة على مكاتب) ... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة ".
(کتاب الزکوۃ، ج:۲،ص:۲۵۹،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100979
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن