بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر گاڑیوں کے کاروبار کی زکوۃ / مسجد کی تعمیر کے وقت پولیس یا کسی اور محکمہ کو پیسہ دینا


سوال

میں نے ایک پلاٹ لیا جس کو میں  نے مسجد اور مدرسہ کے لیے وقف کردیا ہے ،اب میں ازخود مسجد و مدرسہ کی تعمیر کررہا ہوں ،میرا کاروبار قسطوں کا ہے ،میں گاڑی خریدتا اور فروخت کرتا ہوں ،کوئی شوروم یا دوکان وغیرہ نہیں ہے ،بس خریدتا اور بیچتا ہوں ،جو نفع ہوتا ہے اس سے اپنا خرچہ نکال کر باقی سب مسجد و مدرسہ کی تعمیر پر لگاتا ہوں ، اس کے علاوہ کوئی اور کاروبار یا مال نہیں ہے ۔

سوال یہ ہے کہ میرے اس کاروبار میں مجھ پر زکو ۃ لازم ہے یا نہیں ؟

نیز مسجد کی تعمیر میں پولیس وغیرہ  پیسے لیتے ہیں ،تو کیا پولیس والوں کو یہ پیسے دینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت مسؤلہ میں سائل کے پاس  کاروبار کی نیت سے خرید ی گئی گاڑیاں  یا گاڑیوں کے فروخت ہونے کی صورت میں ان کی رقم  نصاب زکو ۃ (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے  بقدر ہو اور اس  پر قمری مہینوں کے اعتبار سے   سال گزرجائے تو اس مال تجارت / نقد رقم  پر زکوۃ لازم ہوگی ۔اگر گاڑیاں قسطوں پر فروخت کی ہیں اور ان کی رقم زکو ۃ کے نصاب کے بقدر ہے تو  اس رقم کی  زکوۃ ادا کرنے کے دو طریقے ہیں:

1: ایک یہ کہ قسطوں کی جس قدر رقم سائل  کو ملتی جائے،زکو ۃ  کی مقررہ تاریخ  آنے پر  اس رقم کی  زکو ۃ ادا کردے  اور قسطوں کی باقی رقم جو بعد میں وصول ہو، اس کی زکو ۃ وصول ہونے پر ادا کردے۔نیز اگر قسطوں کی مد میں ملنے والی مکمل رقم ملنے  کے بعد زکو ۃ ادا کرنی ہے تو  اس کی بھی اجازت ہے، تاہم اگر قرض کئی سال بعد وصول ہوا، جس کی وجہ سے گزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا نہیں کی جاسکی تو  گزشتہ سالوں کی  زکوۃ بھی ادا کرنی ہوگی۔

2: دوسری صورت یہ ہے کہ پوری رقم( یعنی قسطوں پر فروخت کردہ گاڑی  کی مکمل قیمت )کی  زکو ۃ رقم وصول ہونے سے پہلے ہی دے  دے، یہ بھی درست ہے۔ 

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب، كذا في الهداية."

(کتاب الزکاۃ، الباب الثالث في زکاۃ الذهب و الفضة و العروض، الفصل الثاني في العروض، جلد ۱ ص:۱۷۹ :ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم.

(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".

(كتاب الزكوة، باب زكوة المال، ج:2، ص:305، ط:ايج ايم سعيد)

۲۔مسجد و مدرسہ یا کسی بھی جگہ کی تعمیر کے وقت پولیس یا کسی اور محکمہ کا بلاوجہ تنگ کرنا اور پیسوں کا مطالبہ کرنا  جبکہ تمام قانونی تقاضے پورے ہوں ،شرعا رشوت ہے ،رشوت کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ رشوت لینے   اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ  رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، اس لیے حتی الامکان رشوت دینے سے بچنا بھی واجب ہے، البتہ اگر کوئی  جائز کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کو چاہیے  اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)  کسی طرح اس کا کام ہوجائے،اور جب تک کام نہ ہو  اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن اگر شدید ضرورت ہو اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہو تو  اپنے جائز ثابت شدہ حق کے حصول کے  لیے مجبوراً  رشوت دینے کی صورت میں  دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ جو حق ابھی تک ثابت نہ ہو رشوت دے کر اسے حاصل کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي."

  (سنن ابی داود 3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، ط: المکتبة العصریة)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ ."

(6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144308101376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں