بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر دی گئی چیز کتنے پرسنٹ پر دینا چاہیے؟


سوال

 قسطوں پر کوئی بھی چیز کتنے پرسنٹ پر  دینی چاہیے اور کتنے مہینے  کے لیے؟ چھ مہینے کے لیے   کتنے پرسنٹ پر اور سال  کے لیے کتنے پرسنٹ پر؟

جواب

واضح رہے شریعت مطہرہ کے اندر قسطوں کا کاروبار چند شرائط کے ساتھ جائز ہے  اور وہ شرائط یہ ہیں:

  • قسطوں پر خرید و فروخت کرتے وقت نقد اور ادھار کی قیمت بتانے کے بعد اسی مجلس میں نقد یا ادھار قیمت میں سے کسی ایک قیمت پر فیصلہ کرنا ضروری ہے ، مثلاً ادھار لینا اور دینا ہے تو ادھار کی کل قیمت طے کرلینا ضروری ہے۔
  • کل قسطیں بھی متعین کرلینا ضروری ہیں ، اور ہر قسط میں رقم کی مقدار بھی مقرر کرنا ضروری ہے۔
  • ادائیگی کا وقت بھی مقرر کرلینا ضروری ہے ، مثلاً تین مہینے کی مدت ہے،  وغیرہ۔
  • کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانے یا کسی بھی عنوان سے اضافی رقم دینے  کی شرط بھی نہ ہو، اسی طرح مقررہ وقت سے پہلے قسط کی ادائیگی کی صورت میں قیمت میں کمی کی شرط بھی نہ ہو۔
  • ان شرائط کے ساتھ قسطوں کا کاروبار کرنا جائز ہے ، اور  اس صورت میں ادھار کی وجہ سے قیمت میں جو زائد رقم دینی پڑتی ہے ، وہ سود نہیں ہے حلال ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں فریقین قسط پر معاملہ کرتے وقت مذکورہ شرائط کے ساتھ چیز کی مروج قیمت سے زائد جس قیمت پر راضی ہوں،  اس پر بیع کرلیں۔ اب فریقین رضامندی سے جس  فیصد پر راضی ہوں وہ قیمت خریدار کو شرائط کے مطابق ادا کرنا ضروری ہوگا۔

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے:

"البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطه صحیح…، یلزم أن تکون المدة معلومة فی البیع بالتاجیل والتقسیط."

(رقم المادة: (245، 246) البیوع، الباب الثالث: فی بیان المسائل المتعلقة بالثمن، الفصل الأول: فی بیان المسائل المترتبة علی أوصاف الثمن وأحواله: 125، مکتبة حنفیة کوئٹه)

بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة:

"أمّا الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجل بأکثر من سعر النقد، بشرط أن یبتّ العاقدان بأنّه بیع مؤجل بأجل معلوم وبثمن متفق علیه عند العقد."

(ص: 7، ط: مکتبه دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102161

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں