بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر بینک سے گاڑی لینا /قسطوں میں اشیاء خریدنا


سوال

کیااسلامی بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا جائز ہے ؟

کچھ دکاندار حضرات الیکٹرانک آئیٹم قسطوں پر دے رہیں اصل قیمت سے بڑھاکر، شرعی لحاظ سے قسطوں پر ایسا سامان لینا جائز ہے ؟

جواب

  1.  بنک سے گاڑی خریدنے  میں درج ذیل دو شرعی قباحتیں ہیں، جن کی وجہ سے بنک (خواہ اسلامی ہو یا کنونشنل) سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز نہیں۔

١) پہلی قباحت یہ ہے کہ کار لیزنگ میں بنک سے خریدنے والے اور بنک کے درمیان معاہدہ کے تحت دو عقد ہوتے ہیں، ایک بیع(خریدوفروخت) اور دوسرا اجارہ (کرایہ داری) کا عقدہوتا ہے، اور یہ طے پاتاہے کہ اقساط میں سے اگر کوئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع نہیں کرائی گئی تو بینک کی جانب سے مقرر ہ جرمانہ خریدار ادا کرنے کا پابند ہو گا، جو کہ شرعاً جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا باخذ مال في المذهب)... إذ لا يجوز لاحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(باب التعزير:مطلب في التعزير بأخذ المال،4/61 ط:سعید)

٢) دوسری قباحت یہ ہے کہ بینک سے قسطوں پر خریدتے وقت دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں ،ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں جو کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کی وجہ سے ناجائز ہیں:

" عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة."

(رواه الترمذي ،3/525 ،ط: مصطفی البابی الحلبی،مصر )

"و عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في صفقة واحدة."

(رواه في شرح السنة،5/1938،دارالفكر بيروت). 

لہذا مذکورہ بالا شرعی قباحتوں کی بنا پر  بینک سے  لیزنگ پر گاڑی لینا جائز نہیں ہے۔

2۔شریعت میں نقد اور ادھار دونوں طرح خرید وفروخت درست ہے اور ادھار میں متعدد قسطیں رکھنا بھی درست ہے،متعینہ مدت پر ایک ہی مرتبہ پوری رقم کی وصول یابی طے کرنا ضروری نہیں،اور ادھار میں نقد کے مقابلے میں زیادہ قیمت رکھنا بھی درست ہے، البتہ مجلسِ عقد میں نقد یا ادھار اور اس کی قسطوں اور متعینہ قیمت کی تعیین ضروری ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی جہالت یا ابہام نہیں رہنا چاہیے اور کوئی شرطِ فاسد بھی نہ ہونی چاہیے، لہذاکسی کمپنی یا شوروم وغیرہ سے کوئی چیز ادھار قسطوں میں نقد کے مقابلے میں زیادہ قیمت پر خریدنا درست ہے، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں بشرطیکہ معاملہ میں کوئی جہالت یا شرط فاسد نہ ہو۔ نیز ملحوظ رہے  کہ  قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ  لینا جائز نہیں ہوگا۔

( کفایت المفتی قدیم۸:۴۰، احسن الفتاویٰ ۶:۵۱۹،مطبوعہ: ایچ، ایم سعید کمپنی، کراچی)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وإذا عقد العقد علی أنه إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فهو فاسد … وهذا إذا افترقا علی هذا، فإن کان یتراضیان بینهما ولم یتفرّقا حتی قاطعه علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیه فهو جائز الخ ."

(المبسوط للسرخسي ۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت)

بدائع صنائع میں ہے:

"وکذا إذا قال: بعتک هذا العبد بألف درهم إلی سنة أو بألف وخمسة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجهول، فإذا علم ورضی به جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد، وقد زالت في المجلس وله حکم حالة العقد، فصار کأنه معلوم عند العقد."

(بدائع الصنائع ، کتاب البیوع،جهالة الثمن،4/358، ط: وحيدية ،پشاور).

ہدایہ میں ہے:

"لأن للأجل شبها بالمبيع؛ ألا يرى أنه ‌يزاد ‌في ‌الثمن لأجل الأجل."

(الهداية ،3/58،بيروت).

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں