1- ہم قسطوں کا کاروبار کرتے ہیں، جس آدمی کو جو چیز بھی ضرورت ہو تو وہ ہم اس کو قسطوں پر دے دیتے ہیں، لیکن بعض اوقات گاہک جو چیز ہم سے مانگتے ہیں وہ مطلوبہ چیز ہمارے پاس نہیں ہوتی، جیسے سونا، چاندی، سریا، بجری اور جہیز سے متعلق جو بھی مطلوب ہو تو ہم اس مطلوبہ سامان کو دوسری دوکان سے خرید کر اور کبھی کبھار ادھار خرید کر اپنے گاہک کو قسطوں پر دے دیتے ہیں، کیا ہمارا اس طرح کاروبار کرنا درست ہے؟
2- بعض لوگ ہم سے قرض کا مطالبہ کرتے ہیں، تو ہم ان کو کہتے ہیں کہ ہم قسطوں کا کاروبار کرتے ہیں، ہم آپ کو نقد رقم قرض دینے کے بجائے آپ کو سامان قسطوں پر دیتے ہیں، آپ کی مرضی ہے اس کو استعمال میں لائیں یا اس کو فروخت کریں، لہذا قرض کا طالب بھی سمجھ جاتا ہے کہ قرض ملنے والا نہیں ہے، تو وہ قسطوں پر سامان خرید لیتا ہے، کیا اس طرح کاروبار کرنا جائز ہے؟
1- صورت مسئولہ میں شریعت مطہرہ کے اندر بیع بالتقسیط چند شرائط کے ساتھ جائز ہے، اگر ایک شرط بھی مفقود ہو تو بیع بالتقسیط جائز نہیں ہوگا، اور بیع بالتقسیط کی شرائط یہ ہے:
البتہ سونا اور چاندی شریعت کی رو سے ان اشیاء میں شامل ہے جن کی ادھار خرید و فروخت ممنوع ہے، لہذا مذکورہ صورت میں شرعاً سونا اور چاندی کی قسطوں میں خرید و فروخت چاہے بذات خود قسطوں میں دے یا کسی دوسرے دکاندار سے لے کر قسطوں پر دے، بہر صورت ناجائز ہے، ان کے علاوہ دیگر اشیاء جیسا کہ سریا، بجری وغیرہ کا شرائط کے ساتھ قسطوں میں کاروبار کرنا جائز ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، تاہم اشیاء کی عدم موجودگی کی صورت میں جب کسی دوسرے دکاندار سے خریدار کی مطلوبہ چیز مہیا کر رہا ہو تو اس صورت میں اس شیئ میں قبضہ ضروری ہے، قبضہ کے بعد گاہک / کسٹمر کو قسطوں پر دینا درست ہوگا، بغیر قبضہ کے عقد کرنا جائز نہیں ہوگا۔
شرح المجلة لسلیم رستم باز میں ہے:
"البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطه صحیح…، یلزم أن تکون المدة معلومة فی البیع بالتاجیل والتقسیط."
(رقم المادة: (245، 246) البیوع، الباب الثالث: فی بیان المسائل المتعلقة بالثمن، الفصل الأول: فی بیان المسائل المترتبة علی أوصاف الثمن وأحواله: 125، مکتبة حنفیة کوئٹه)
الهدایہ میں ہے:
"لأنّ للأجل شبها بالمبیع، الا تری أنّه یزاد فی الثمن لأجل الاجل."
(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة: 3/ 76 ، ط: شرکة علمیة ملتان)
بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة:
"أمّا الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجل بأکثر من سعر النقد، بشرط أن یبتّ العاقدان بأنّه بیع مؤجل بأجل معلوم وبثمن متفق علیه عند العقد."
(ص: 7، ط: مکتبه دار العلوم کراچی)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"فنقول من حکم المبیع إذا کان منقولا أن لایجوز بیعه قبل القبض… وأمّا إذا تصرف فیه مع بائعه، فإن باعه منه لم یجز بیعه أصلاً قبل القبض."
(کتاب البیوع، الباب الأول، الفصل الثانی فی معرفة المبیع والثمن والتصرف فیهما قبل القبض: 3/ 13، ط:رشیدیه)
2- اور دوسری صورت جس میں سائل طالب قرض کو قرض دینے کے بجائے قسطوں پر سامان خریدنے کے لئے کہتا ہے، تو قرض کے بجائے سامان قسطوں پر دینے کی یہ صورت بیع عینہ کی ہے اور اس کی چند صورتیں ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(ماخوذ از تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا: 2/ 204-206)
لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے سوال میں جو صورت لکھی ہے وہ مکروہ تحریمی ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔
مجمع الأنهر میں ہے:
"يستقرض من تاجر عشرة فيأبى عنه ويبيع منه ثوبا يساوي عشرة بخمسة عشر مثلا نسيئة في نيل الزيادة ليبيعه المستقرض بعشرة ويتحمل خمسة، سمي به لما فيه من الإعراض عن الدين إلى العين."
(کتاب الکفالة، فصل دفع الأصيل المال إلى كفيله: 3/ 194، ط: دار الکتب العلمیة)
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:
"والكمال بن الهمام يرى أنه سمي بيع العينة: لأنه من العين المسترجعة."
(حرف الباء، بیع العینۃ: 9/ 95، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية الكويت)
البحرالرائق میں ہے:
"قوله: أو أمة علی أن یعتق المشتري… أو یقرض المشتري درهمًا أو یهدي له أو یسلم إلی کذا أو ثوب علی أن یقطعه البائع أو یخیطه قمیصًا) أي لم یجز بیع أمة بشرط منها، وهو فاسد؛ لأنّه بیع و شرط، وقد نهی النّبي صلی الله علیه وسلم عن بیع و شرط."
(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب: في البیع بشرط فاسد: 6/ 84، 85، ط: سعید)
وفیه ایضا:
(قوله: وشراء ما باع بالأقلّ قبل نقد الثمن) أي لم یجز شراء البائع ما باع بأقلّ مما باع قبل نقد الثمن."
(کتاب البیع ، باب البیع الفاسد: 6/ 82، ط: سعید)
الدر مع الرد میں ہے:
"(أمر) الأصیل (کفیله ببیع العینة) أي بیع العین بالربح نسیئة لیبعها المستقرض بأقلّ لیقضي دینه، اخترعه أکلة الربا، وهو مکروه مذموم شرعًا لما فیه من الإعراض عن مبرة الإقراض۔ قال ابن عابدین: (قوله: وهو مکروه) أي عند محمد، وبه جزم في الهدایة، قال في الفتح: وقال أبو یوسف: لایکره هذا البیع؛ لأنّه فعله کثیر من الصحابة… و قال محمد: هذا البیع في قلبي کأمثال الجبال ذمیم اخترعه أکلة الربا، وقد ذمّهم رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال: إذا تبایعتم بالعینة وابتعتم أذناب البقر ذللتم وظهر علیکم عدوکم أي شغلتم بالحرث عن الجهاد، وفي روایة ’’سلط علیکم شرارکم فیدعوا خیارکم فلایستجاب لکم، وقیل: إیاک والعینة فإنّه العینة، ثم قال في الفتح ما حاصله: إنّ الّذي یقع في قلبه أنّه إن فعلت صورة یعود فیها إلی البائع جمیع ما أخرجه أو بعضه کعود الثوب إلیه في الصورة المارة، وکعود الخمسة في صورة إقراض الخمسة عشر فیکره یعني تحریمًا، فإن لم یعد کما إذا باعه المدیون في السوق فلا کراهة فیه بل خلاف الأولیٰ؛ فإنّ الأجل قابله قسط من الثمن والقرض غیر واجب علیه دائمًا بل هو مندوب، و مالم ترجع إلیه العین الّتي خرجت منه لایسمّی بیع العینة؛ لأنّه من العین المسترجعة لا العین مطلقًا… وجعله السید أبو السعود محمل قول أبي یوسف، وحمل قول محمد والحدیث علی صورة العود."
(کتاب الکفالة، مطلب: بیع العینة: 5/ 325، 326 ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101624
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن