بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر اصل قیمت سے زائد قیمت پر سامان فروخت کرنا


سوال

میں ایک دوکان دار ہوں اور دوکان داری کے  ساتھ  قسطوں  کا کاروبار بھی کرتا ہوں، یعنی ایک موبائل 15000کا خرید کر پھر گاہک کو وہی موبائل 25000پرقسطوں کے حساب سے بیچ دیتا ہوں،  گاہک  مجھے کچھ  ایڈوانس نقد روپیہ ادا کرتاہے اور باقی ہر مہینے 2000یا3000ہزار قسط کے طور پر  ادا  کرتاہے اور موبائل میں منافع کے بارے میں گاہک کو کوئی معلومات نہیں ہوتیں اور قسط  کی  تاخیر پر کوئی اضافی چارجز بھی وصول نہیں کرتا ہوں:

کیا اس میں  سود ہے  یا نہیں؟ جائز ہے یانہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نقد موبائل خریدنے اور اس پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد قسطوں پر زائد قیمت طے کرکے آگے فروخت کرنا جائز ہے، البتہ قسطوں پر خرید و فروخت جائز ، و صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:

۱- معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

۲- مدت متعین ہو۔

۳- مجموعی قیمت (اور قسط کی رقم) متعین ہو۔

۴- کسی قسط کی ادائیگی جلدی کرنے کی صورت میں قیمت میں کمی اور تاخیر کی صورت میں اضافہ (جرمانہ) وصول کرنے کی شرط نہ رکھی جائے، اور نہ جرمانہ وصول کیا جائے۔

پس معاملہ کرتے وقت اگر  مذکورہ بالا شرائط کی پاس داری کی جائے تو یہ جائز ہے، اور اگر ان شرائط کی پاس داری نہ کی جائے تو اس صورت میں قسطوں پر خرید و فروخت کا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

ملحوظ رہے کہ قسطوں پر فروخت کرنے کی صورت میں اصل قیمت اور منافع بتلانا شرعا ضروری نہیں۔

نیز مسئولہ صورت میں سود بھی نہیں، کیوں کہ سود  شرعاً اس اضافہ کو  کہا جاتا ہے، جو عوض سے خالی ہو، جب کہ مسئولہ صورت میں ایک طرف موبائل اور دوسری طرف اس کے عوض میں طے شدہ قیمت ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں