بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر انشورنس کے ساتھ گاڑی لینے کا حکم


سوال

میں سوزوکی کمپنی سے ایک موٹر سائیکل قسطوں پر لینا چاہتا ہوں، سوزوکی کمپنی کا طریقہ کار درجِ ذیل ہے: موٹر سائیکل کی اصل قیمت: 175,000/= روپے ڈائون پیمنٹ:   20 فیصد (موٹر سائیکل کی مکمل قیمت کا بیس فیصد ہوگا) رجسٹریشن فیس: 6,500/= روپے (یہ رجسٹریشن پہلے سوزوکی کمپنی ہی کے نام پر ہوتی ہے اور جب متعین اقساط مکمل اداء کر دی جاتی ہے تو صارف کے نام پر ٹرانسفر کر دی جاتی ہے نیز یہ بائیک کی قیمت کے مطابق مختلف ہو تی ہیں) پروسسینگ چارجز: 6,000/= روپے (متعین ہیں ہر قیمت کی بائیک کے لیے) انشورنس چارجز ای ایف یو کمپنی: 8,700/= ( ایک سال کے لیے، اور یہ بھی بائیک کی قیمت کے مطابق مختلف ہوتی ہے ) (نوٹ: یہ انشورنس سوزوکی کمپنی کے نام پر کی جاتی ہے اور ایک سال کے لیے ہوتی بعد میں صارف کے نام ٹرانسفر کے بعد اگر صارف اس کو برقرار رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے ورنہ ختم ہوجاتی ہے) یہ تمام رقم ابتداء میں سوزوکی کمپنی کے نام چیک کی صورت میں لے لی جاتی ہے اور بقایا رقم جو کہ اصل قیمت کا اسی فیصد باقی ہوتی ہے کو دو سال کی اقساط پر تقسیم کر دیا جاتا ہےاور اس میں کچھ بھی رقم اضافی نہیں لی جاتی۔ حاصل یہ ہوا کہ میں سوزوکی کمپنی سے موٹر سائیکل 175,000/= کی بجائے دو سال کی اقساط پر 196,150/=ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں سوزوکی کمپنی سے مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق معاہدہ کرسکتا ہوں؟

جواب

قسطوں پر خریدوفروخت  جائز  ہونے کےلیے   درج ذیل  شرائط کی رعایت ضروری ہے:

1۔  معاملہ متعین ہو یعنی سودا نقد کیا جارہا ہے یا ادھار۔

 2۔   مدت متعین ہو۔

3۔  مجموعی قیمت (اور قسط کی رقم) متعین ہو۔

4۔  کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اگر معاملہ کرتے وقت یہ شرط لگائی گئی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

صورتِ  مسئولہ اگرچہ قسطوں کے حساب سے  درست ہے،   لیکن اس میں انشورنس کی پالیسی ہے،اور انشورنس (بیمہ) سود ،جوئے اور دھوکے  کا مجموعہ ہے، اور یہ شریعت میں حرام ہیں، لہذا کسی بھی قسم کی انشورنس پالیسی (خواہ زندگی  کی ہو یا گاڑی کی ہو) لینا ناجائز اور حرام ہے۔  لہذا  اپنے اختیار سے   انشورنس کراناشرعاً جائز نہیں،مذکورہ صورت میں سائل کو چاہیے کہ کسی ایسے ادارے سے موٹر سائیکل خریدے ، جہاں انشورنس کی پالیسی نہ ہو۔لیکن اگر کسی جگہ(جیسا کہ باہر ممالک میں ) جبری اور قانونی طور پر   انشورنس کرانا لازمی ہو تو (دل سے ناجائز سمجھتے ہوئے انشورنس کرانے والے مجبور شخص کو)  اس کا گناہ نہیں ہوگا۔اور اگر کسی وجہ سے مجبوری کی  صورت میں انشورنس کی پالیسی اپنایا جائے تو صرف اپنی جمع کی ہوئی رقم کے بقدر ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ 

مجلة الأحكام العدلية میں ہے:

"(الْمَادَّةُ 157) التَّقْسِيطُ تَأْجِيلُ أَدَاءِ الدَّيْنِ مُفَرَّقًا إلَى أَوْقَاتٍ مُتَعَدِّدَةٍ مُعَيَّنَةٍ."

(الكتاب الأول في البيوع، المُقَدِّمَةٌ: فِي بَيَانِ الِاصْطِلَاحَاتِ الْفِقْهِيَّةِ الْمُتَعَلِّقَةِ بِالْبُيُوعِ، 1 / 33، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

( كتاب الحدود، باب التعزير، 4 / 61، ط: دار الفكر )

وفیہ ایضا:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 (کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، ج:۶ ؍۴۰۳ ،ط:سعید )

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"أنواع التأمين:التأمين من حيث الشكل نوعان: ۱  - تأمين تعاوني ...

۲  - تأمين تجاري أو التأمين ذو القسط الثابت، وهو المراد عادة عند إطلاق كلمة التأمين، وفيه يلتزم المستأمن بدفع قسط معين إلى شركة التأمين القائمة على المساهمة، على أن يتحمل المؤمن (الشركة) تعويض الضرر الذي يصيب المؤمن له أو المستأمن. فإن لم يقع الحادث فقد المستأمن حقه في الأقساط، وصارت حقا للمؤمن. وهذا النوع ينقسم من حيث موضوعه إلى:

 ۱  - تأمين الأضرار: وهو۔۔۔۔۔۔ ۲  - وتأمين الأشخاص: وهو يشمل:

التأمين على الحياة: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ لشخص المستأمن أو للورثة عند الوفاة، أو الشيخوخة، أو المرض أو العاهة، بحسب مقدار الإصابة.

والتأمين من الحوادث الجسمانية: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ معين إلى المؤمن له في حالة إصابته أثناء المدة المؤمن فيها بحادث جسماني، أو إلى مستفيد آخر إذا مات المستأمن ... أما التأمين التجاري أو التأمين ذو القسط الثابت: فهو غير جائز شرعا، وهو رأي أكثر فقهاء العصر ... وسبب عدم الجواز يكاد ينحصر في أمرين: هما الغرر والربا. أما الربا: فلا يستطيع أحد إنكاره؛ لأن عوض التأمين ناشئ من مصدر مشبوه قطعا؛ لأن كل شركات التأمين تستثمر أموالها في الربا، وقد تعطي المستأمن (المؤمن له) في التأمين على الحياة جزءا من الفائدة، والربا حرام قطعا في الإسلام ... والربا واضح بين العاقدين: المؤمن والمستأمن، لأنه لا تعادل ولا مساواة بين أقساط التأمين وعوض التأمين، فما تدفعه الشركة قد يكون أقل أو أكثر، أو مساويا للأقساط، وهذا نادر۔ والدفع متأخر في المستقبل. فإن كان التعويض أكثر من الأقساط، كان فيه ربا فضل وربا نسيئة، وإن كان مساويا ففيه ربا نسيئة، وكلاهما حرام ...

أما الغرر: فواضح في التأمين؛ لأنه من عقود الغرر: وهي العقود الاحتمالية المترددة بين وجود المعقود عليه وعدمه، وقد ثبت في السنة حديث صحيح، رواه الثقات عن جمع من الصحابة: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الغرر». ويقاس على البيع عقود المعاوضات المالية، فيؤثر الغرر فيها، كما يؤثر في عقد البيع. وعقد التأمين مع الشركات من عقود المعاوضات المالية، لا التبرعات، فيؤثر فيه الغرر، كما يؤثر في سائر عقود المعاوضات المالية، وقد وضعه رجال القانون تحت عنوان (عقود الغرر) لأن التأمين لايكون إلا من حادث مستقبل غير محقق الوقوع، أو غير معروف وقوعه، فالغرر عنصر لازم لعقد التأمين. والغرر في التأمين في الواقع كثير، لا يسير، ولا متوسط؛ لأن من أركان التأمين: الخطر، والخطر حادث محتمل لايتوقف على إرادة العاقدين. والمؤمن له لا يستطيع أن يعرف وقت العقد مقدار ما يعطي، أو يأخذ، فقد يدفع قسطا واحدا، ويقع الخطر، فيستحق جميع ما التزم به المؤمن، وقد يدفع جميع الأقساط، ولا يقع الخطر، فلا يأخذ شيئا وكذلك حال المؤمن، لا يعرف عند العقد مقدار ما يأخذ، أو ما يعطي".

 (القسم الثالث:العقوداو التصرفات المدنیۃ،انواع التامین،ج:۵ ؍۳۴۲۱۔۔۳۴۲۵،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں