میں موبائل کا کاروبار کرنا چاہتاہوں، جیسا کہ میں موبائل کیش میں لیتا ہوں، مطلب اگر موبائل کی قیمت 2 لاکھ ہے اور میں اُسے 2 لاکھ 30 ہزار میں فروخت کرتا ہوں، لیکن جو لینے والا ہے وہ مجھے اقساط میں ادائیگی کرتا ہے، یعنی ہر مہینے میں مجھے 50 ہزار دے گا، اور میں 30 ہزار اُس بندے سے زیادہ لے رہا ہوں، کیا یہ کام شریعت میں جائز ہے یا سود میں آتا ہے یا نہیں آتا ہے؟
قسطوں پر موبائل یا دیگر اشیاء لینا جائز ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ عقد کے وقت کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے اور یہ طے کرلیا جائے کہ خریداری نقد پر ہورہی ہے یا ادھارپر، اور ادھار کی مدت طے کرلی جائے، اور قسط میں تاخیر ہونے کی صورت میں کوئی اضافہ/ جرمانہ وصول نہ کیاجائے۔ مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو یہ بیع ناجائز اور سود کے حکم میں ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ شرائط عام اشیاء کے بارے میں ہیں، نقدی یا سونا چاندی قسطوں پر خریدنا جائز نہیں ہے۔
جیساکہ "فتاوی شامی" میں ہے:
"(قوله: لا بأخذ مال في المذهب)... إذ لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(باب التعزير:مطلب في التعزير بأخذ المال ٦١/٤ ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202200465
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن