بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر موبائل بیچنا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے ایک کام شروع کیا ہے جو کہ لوگ اسے ناجائز اور سود سمجھتے ہیں اس کے بارے میں آپ سے معلومات کرنی ہے کام یہ ہے کہ ہم مارکیٹ سے موبائل خریدتے ہیں اور اس کو قسطوں پر دیتے ہیں جیسے کہ 30000 کا موبائل قسطوں پر 45000  یا اس سے کم یا اس سے زیادہ کی قیمت  پر دیتے ہیں جس میں 10000 ایڈوانس یا اس سے کم یا اس سے زیادہ لیتے ہیں اور پھر مہینہ قسط لیتے ہیں 5000 یا اس سے زیادہ یا اس سے کم لیتے ہیں جیسے کہ یہ کام ہم پارٹ ٹائم کرتے ہیں ہماری ذاتی کاسمیٹکس کی دوکان ہیں ۔

لوگ آتے ہیں ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے لیے موبائل لاؤ قسطوں پر تو ہم انہیں مارکیٹ سے لاکر دیتے ہیں اور انہیں پھر قسطوں پر دیتے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ یہ کام جائز ہے یا نہیں ، لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ کام جائز نہیں اگر یہ کام جائز ہے اور لوگ گمان کرتے ہیں تو اس سے ہمارے لیے گناہ تو نہیں ہوگا ؟

جواب

ہر شخص کے لیے اپنی مملوکہ  چیز  کو  اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور ادھار دنوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان  فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے، اسی  طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے،  اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“ یعنی قسطوں پر خریدوفروخت  کہتے ہیں،  اور اس  بیع کے صحیح ہونے کے لیے درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

1: قسط کی رقم متعین ہو۔

2: قسط کی مدت اور کل مدت متعین ہو۔

3:معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

4: قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ  (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

بصورتِ مسئولہ  مذکورہ شرائط   پائی جائیں تو موبائلوں  کی خرید و فروخت قسط وار جائز ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور لوگوں کے گمان کی وجہ سے آپ گناہ گار بھی نہ ہوں گے۔

شرح المجلہ  لسلیم  رستم باز اللبنانی میں ہے:

"البیع مع تأجیل الثمن و تقسیطه صحیح، یلزم أن یکون المدة معلومةً في البیع بالتأجیل و التقسیط."

(الكتاب الاول فى البيوع، الباب الثالث فى بيان المسائل المتعلقة بالثمن، رقم الماده:245، ج:1، ص:100، ط:مكتبة رشيدية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144307100693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں