بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر مکان پلاٹ وغیرہ خریدنا


سوال

کیا قسطوں پر پلاٹ فلیٹ یا مکان لینا جائز ہے؟

جواب

قسطوں پر اشیاء کی خرید و فروخت  کے صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے :

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار، اور ایک شرط یہ بھی ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر قسطوں پر پلاٹ ، فلیٹ ، مکان یا دیگر اشیاء کی خریدو فروخت میں  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو یہ بیع درست ہو گی ،اور اگر ان شرائط کی رعایت نہ رکھی جائے، تو  اس طرح خرید وفروخت  کرنا درست نہیں ہو گا۔

"مجمع الأنهر شرح ملتقي الأبهر "میں ہے :

"ویصح البیع بثمن مال مؤجل لإطلاق قوله تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾."

(كتاب البيوع ،ج:3 ،ص:13، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

مجلۃ  الأحكام العدليه ميں هے :

"البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح…… یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط."

(كتاب البيوع،ج:1،ص:127، رقم المادة: ۲۴۵، ط: مکتبة الإتحاد دیوبند)

مبسوط للسرخسی میں ہے :

"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فہو فاسدٌ … وہٰذا إذا افترقا علی ہٰذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز الخ."

(كتاب البيوع،۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيعين في بيع» وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول،.....وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد ‌زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

(كتاب البيوع ،باب شرائط الصحة في البيوع ،ج:5 ،ص:158 ،ط:رشيدية)

بحوث قضایا فقہیہ میں ہے :

"حقيقة البيع بالتقسيط:

"البيع بالتقسيط بيع بثمن مؤجل يدفع إلى البائع في أقساط متفق عليها، فيدفع البائع البضاعة المبيعة إلى المشتري حالّة، ويدفع المشتري الثمن في أقساط مؤجلة، وإن اسم (البيع بالتقسيط) يشمل كل بيع بهذه الصفة سواء كان الثمن المتفق عليه مساويا لسعر السوق، أو أكثر منه، أو أقل، ولكن المعمول به في الغالب ‌أن ‌الثمن ‌في (‌البيع بالتقسيط) يكون أكثر من سعر تلك البضاعة في السوق."

(کتاب البیوع ،احکام البیع بالتقسیط ،ص:11 ،ط:دارالقلم ،بدمشق)

وفیہ ایضاً:

"ومما يجب التنبيه عليه هنا: أن ما ذكر من جواز هذا البيع إنما هو منصرف إلى زيادة في الثمن نفسه، أما ما يفعله بعض الناس من تحديد ثمن البضاعة على أساس سعر النقد، وذكر القدر الزائد على أساس أنه جزء من فوائد التأخير في الأداء، فإنه ربا صراح، وهذا مثل أن يقول البائع: بعتك هذه البضاعة بثماني ربيات نقدا، فإن تأخرت في الأداء إلى مدة شهر، فعليك ربيتان علاوة على الثمانية، سواء ‌سماها \"‌فائدة \" (Interest) أو لا، فإنه لا شك في كونه معاملة ربوية، لأن ثمن البضاعة إنما تقرر كونه ثمانية، وصارت هذه الثمانية دينا في ذمة المشتري، فما يتقاضى عليه البائع من الزيادة فإنه ربا لا غير."

(کتاب البیوع ،احکام البیع بالتقسیط ،ص:14 ،ط:دارالقلم ،بدمشق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں