بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر لیپ ٹاپ خریدنے کا حکم


سوال

کیامیں لیپ ٹاپ قسطوں میں لے سکتاہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے لیپ ٹاپ قسطوں پر لینا جائز ہے،بشرط یہ كہ قسطوں کی مدت  بھی متعین ہو اور اس کی مکمل قیمت بھی متعین ہو، اورقسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کوئی اضافی رقم کی شرط بھی نہ لگائی جائے،اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہوگی تو بیع فاسد ہوجائے گی۔

"سنن الترمذی"میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة...والعمل على هذا عند أهل العلم، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما."

(ص:٥٢٥،ج:٣،ابواب البیوع،‌‌باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة،ط:البابی)

"رد المحتار على الدر المختار" میں ہے:

"(وصح ‌بثمن ‌حال) وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع."

(قوله: لئلا يفضي إلى النزاع) تعليل لاشتراط كون الأجل معلوما؛ لأن علمه لا يفضي إلى النزاع، وأما مفهوم الشرط المذكور وهو أنه لا يصح إذا كان الأجل مجهولا فعلته كونه يفضي إلى النزاع فافهم."

(ص:٥٣١،ج:٤،كتاب البيوع،مطلب في الفرق بين الأثمان والمبيعات،ط:ايج ايم سعيد)

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال وهو محرم في كل مكيل وموزون بيع مع جنسه."

(ص:١١٧،ج:٣،کتاب البیوع،الباب التاسع،الفصل السادس،ط:دار الفکر،بیروت)

"البحر الرائق"میں ہے:

"(قوله وصح بثمن حال وبأجل معلوم) أي البيع لإطلاق النصوص وفي السراج الوهاج إن الحلول مقتضى العقد وموجبه والأجل لا يثبت إلا بالشرط اهـ.قيد بعلم الأجل؛ لأن جهالته تفضي إلى النزاع فالبائع يطالبه في مدة قريبة والمشتري يأباها فيفسد."

(ص:٣٠١،ج:٥،كتاب البيع،ط:دار الکتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں