بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کو اقساط کی ادائیگی سے قبل آگے بیچنے کا حکم


سوال

کیا قسطوں پر کوئی چیز لے کر تمام اقساط کی ادائیگی سے قبل اس کو آگے بیچ دینا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ بیع میں محض ایجاب وقبول سے عقد تام ہوجاتا ہے،اور عقد تام ہوجانے کے بعد مبیع میں مشتری کا حق اور ثمن میں بائع کا حق ثابت ہوجاتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرایک شخص ادھار پر کوئی چیز خریدے،اور اس پربائع کی رضا مندی سے قبضہ بھی کرلے توخریدنے والے کے لیےتمام قسطوں کی ادائیگی سے قبل  بھی اس چیز کوآگے کسی اور کو بیچنامطلقاًجائز ہے،تاہم اگر وہ چیز فروخت کنندہ ہی کو بیچی جارہی ہوتو اس صورت میں اقساط کی مکمل ادائیگی سے قبل پہلی والی قیمت سے کم قیمت میں وہ چیزاسی کو بیچنا جائز نہیں ہے۔

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"وحكمه ثبوت الملك.

(قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن."

(ص:٥٠٦،ج:٤،کتاب البیوع،ط:ایج ایم سعید)

وفيه ايضا:

"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول...(ولا بد) لعدم الجواز (من اتحاد جنس الثمن) وكون المبيع بحاله (فإن اختلف) جنس الثمن أو تعيب المبيع (جاز مطلقا) كما لو شراه بأزيد أو بعد النقد.

(قوله قبل نقد كل الثمن الأول) قيد به؛ لأن بعده لا فساد، ولا يجوز قبل النقد، وإن بقي درهم ... (قوله بأزيد أو بعد النقد) ومثل الأزيد المساوي كما في الزيلعي، وهذا قول المصنف بالأقل قبل نقد الثمن."

(ص:٧٣،ج:٥،کتاب البیوع،‌‌باب البيع الفاسد،ط:ایج ایم سعید)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"وإن كان مؤجلا فليس للبائع أن يحبس المبيع قبل حلول الأجل ولا بعده كذا في المبسوط...إذا استوفى الثمن وسلم المبيع أو سلم بغير قبض الثمن أو قبض المشتري بإجازة البائع لفظا أو قبضه وهو يراه ولا ينهاه ليس له أن يسترده ليحبسه بالثمن."

(ص:١٥،ج:٣،کتاب البیوع،الباب الرابع،ط:دار الفکر،بیروت)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع ما لم يقبض، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الإنفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه."

(ص:١٨٠،ج:٥،كتاب البيوع،فصل في شرائط الصحة في ‌البيوع،ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں