بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر خریدے ہوئے پلاٹ پر زکات کے وجوب کا حکم


سوال

قسطوں پر  خریدے  ہوئے  پلاٹ  پر  زکات کا کیا حکم ہے جب کہ  چند قسطیں باقی ہیں اور  بیچنے کی نیت ہے ؟

جواب

جو  پلاٹ  قسطوں  پر  تجارت  (بیچ کر نفع کے  حصول  کی نیت) سے خریدا گیا ہو اس پلاٹ پر سال پورا ہونے پر یا دیگر اموال کی زکات کی ادائیگی کے وقت اس کی موجودہ کل مالیت میں سے رواں سال واجب الادا  قسطیں منہا کرنے کے بعد باقی رقم کے ڈھائی فیصد (چالیسویں حصہ) کے بقدر رقم زکات میں ادا کرنا لازم ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 259):

’’(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)؛ لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه (نام ولو تقديراً) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه (فلا زكاة على مكاتب) ... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة.

 (قوله: نام ولو تقديراً) النماء في اللغة بالمد: الزيادة، والقصر بالهمز خطأ، يقال: نما المال ينمي نماء وينمو نموا وأنماه الله تعالى، كذا في المغرب. وفي الشرع: هو نوعان: حقيقي وتقديري؛ فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو يد نائبه، بحر‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں