بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر کاروبار کرنا


سوال

قسطوں پر کاروبار کرنا جائز ہے ؟ کیوں کہ قسطوں پر تو ریٹ مارکیٹ سے زیادہ لگاتے ہیں!

جواب

ہر شخص کے لیے اپنی مملوکہ چیز کو اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور  ادھار دنوں طرح فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے، اسی طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے، اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“یعنی قسطوں پر خریدوفروخت کہتے ہیں،  البتہ عقد کے وقت یہ طے کرنا ضروری ہے کہ سودا نقد ہے یا ادھار، اگر شروع سے ہی معاملہ متردد ہوا، تو بیع درست نہیں ہوگی، نیز ادھار  کی صورت طے کرنے کے بعد  بھی اس بیع کے صحیح  ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے:

1- مجموعی قیمت متعین کردی جائے۔

2- قسط کی رقم متعین ہو۔

3- قسط کی مدت متعین ہو۔

4-   کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے ، اور وقت سے پہلے قسط کی ادائیگی کی صورت میں قیمت میں کمی نہ کی جائے۔

اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

شرح المجلہ میں ہے:

"البیع مع تأجیل الثمن و تقسیطه صحیح، یلزم أن یکون المدة معلومةً في البیع بالتأجیل و التقسیط."

(شرح المجله لسلیم رستم باز،ص:125،رقم الماده:245)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدًا."

(البحرالرائق،ج:6،ص:115،ط:مکتبة رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں