بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر گاڑی لینا اور جرمانہ لینے کا حکم


سوال

زید کو گاڑی کی ضرورت ہے لیکن اس کے پاس خریدنے کے لئےپیسے نہیں، جب اس نے اپنے دوست عبد الحلیم کو صورت حال سے آگاہ کیا تو اس نے کہا: ایک گاڑی ہے جس کی قیمت چالیس لاکھ روپے ہے، تو میں اسے اپنے لئے خرید کر آپ کو پینتالیس لاکھ کی قیمت میں فروخت کروں گا، اور آپ اس قیمت کو دو سال کے اندر اندر ادا کروگے۔ کیا اس طرح عقد کرنا جائز ہے؟ اگر دو سال میں زید نے عبد الحلیم کے پیسے واپس نہیں کئے تو دو سال سے اوپر کی مدت کے عوض اس سے مزید تاوان لے سکتا ہے کہ نہیں؟

وضاحت:زید نے عبد الحلیم سے گاڑی خریدنے کے لئے ابتداءً قرض نہیں مانگا تھا۔

جواب

صورت مسئولہ میں فریقین کے مابین مذکورہ عقد اس صورت میں صحیح ہوگا جب فریقین رقم کی ادائیگی کے لئے مدت اور گاڑی کی کل قیمت یعنی تمام قسطیں دونوں طے کرلیں، اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی مجہول ہوگا تو عقد صحیح نہیں ہوگا،البتہ اگر زید دو سال کے اندر قم ادا نہیں کرپایا تو اس صورت میں عبد الحلیم زید سے مزید تاوان یا جرمانہ نہیں لے سکتا کیونکہ متعین رقم سے زائد لینا سود کے زمرے میں داخل ہے اور سود کا لینا دینا شرعا ناجائز ہے، اور اگر بوقت معاملہ جرمانہ عائد کرنے کی شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد قرار پائے گا۔ لہذا قسطوں پر بیع کرنے کی صورت میں تمام شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے، نیز اس معاملہ میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ عبد الحلیم گاڑی خرید کر اسے اپنے قبضہ میں لے لے،پھر اس کو نفع کے ساتھ فروخت کرے،واضح رہے کہ  گاڑی کو قبضہ میں لئے بغیر آگے زید کو فروخت کرنا شرعاً ناجائز ہوگا۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً۔

(آل عمران:۱۳۰)

شرح المجلة لرستم باز میں ہے:

البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح، يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط… لأن جهالته تفضي إلى النزاع فيفسد البيع به.

(المادة: ٢٤٦،٢٤٥، الكتاب الأول في البيوع، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالثمن: ١٠٠/١، ط: فاروقيه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه ‌قبل ‌القبض۔

(كتاب البيوع، الباب الثاني فيما يرجع إلى انعقاد البيع، الفصل الثالث في معرفة المبيع والثمن والتصرف فيهما قبل القبض: 3/ 13، ط: ماجدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100935

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں