میں نے ایک موٹر کار 10 لاکھ روپے میں قسطوں پر دیا ہے، کیا اس پر زکوٰۃ ہے؟ اگر زکوٰۃ ہے تو میں کس طرح ادا کروں؟ مجھے وہ سال میں دو لاکھ روپے دیتا ہے پانچ سالوں میں مکمل کردے گا، ایک سال میں وہ مجھے دو لاکھ روپے دیتا ہے تو کیا میں صرف دو لاکھ روپے کی زکوٰۃ ادا کروں یا دس لاکھ کی؟ کیا ایک سال پورا ہونے پر دس لاکھ روپے پر زکوۃ ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ جو مال قسطوں پر فروخت کیا گیا ہو اُس مال کی پوری قابلِ وصول رقم پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تاہم زکوٰۃ کی ادائیگی کا وجوب اُس وقت ہوتا ہے جب رقم وصول ہو جائے، لیکن بہتر یہ ہی ہے کہ سال پورا ہونے پر جب دیگر اموال کی زکوٰۃ ادا کرے تو اس غیر وصول شدہ رقم کی زکوٰۃ بھی ادا کر دے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے ایک موٹر دس لاکھ میں فروخت کی ہے اور اس کی کُل رقم پانچ سال میں وصول ہو گی تو زکوٰۃ کا وجوب مکمل رقم پر ہو گا، پھر آپ کو اختیار ہے خواہ ہر سال دیگر اموال کی زکوٰۃ ادا کرتے وقت اس رقم کی زکوٰۃ بھی ادا کر لیں، اور اگر چاہیں تو فی الحال ساری وصول ہونے والی رقم کی زکوٰۃ ادا نہ کریں، بلکہ جیسے جیسے اقساط وصول ہوتی جائیں سال بہ سال اُن اقساط کی زکوٰۃ ادا کرتے رہیں۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے جو رقم ضروریات میں خرچ ہوجائے، اس کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی؛ لہٰذا ہر سال قسطوں کی مد میں جو رقم وصول ہو (یعنی دو لاکھ روپے) اگر وہ زکوٰۃ کا سال پورا ہونے پر موجود ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، لیکن اگر وہ ضروریات میں صرف ہوگئی تو اس کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 305):
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200232
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن