بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں میں مہنگا فروخت کرنا


سوال

کیا قسطوں کی صورت میں زیادہ قیمت لینا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  قسطوں پر فروخت کرنے کی صورت میں کسی چیز  کی    زائد قیمت (نقد کی بنسبت) طے کرکے آگے فروخت کرنا جائز ہے، البتہ قسطوں پر خرید و فروخت جائز ، و صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:

۱- معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

۲- مدت متعین ہو۔

۳- مجموعی قیمت (اور قسط کی رقم) متعین ہو۔

۴- کسی قسط کی ادائیگی جلدی کرنے کی صورت میں قیمت میں کمی اور تاخیر کی صورت میں اضافہ (جرمانہ) وصول کرنے کی شرط نہ رکھی جائے، اور نہ جرمانہ وصول کیا جائے۔

پس معاملہ کرتے وقت اگر  مذکورہ بالا شرائط کی پاس داری کی جائے تو یہ جائز ہے، اور اگر ان شرائط کی پاس داری نہ کی جائے تو اس صورت میں قسطوں پر خرید و فروخت کا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

فی نيل الأوطار:

2180 - (وعن سماك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه قال: «نهى النبي صلى الله عليه وسلم  عن صفقتين في صفقة» قال سماك هو الرجل يبيع البيع فيقول: هو بنسا بكذا وهو بنقد بكذا وكذا. رواه أحمد) .

قوله: من باع بيعتين فسره سماك بما رواه المصنف عن أحمد عنه، وقد وافقه على مثل ذلك الشافعي فقال: بأن يقول: بعتك بألف نقدا أو ألفين إلى سنة، فخذ أيهما شئت أنت وشئت أنا. ونقل ابن الرفعة عن القاضي أن المسألة مفروضة على أنه قبل على الإبهام. أما لو قال: قبلت بألف نقدا وبألفين بالنسيئة صح ذلك.

وقالت الشافعية والحنفية وزيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور: إنه يجوز لعموم الأدلة القاضية بجوازه وهو الظاهر؛ لأن ذلك المتمسك هو الرواية الأولى من حديث أبي هريرة،... أن غاية ما فيها الدلالة على المنع من البيع إذا وقع على هذه الصورة، وهي أن يقول: نقدا بكذا، ونسيئة بكذا، لا إذا قال: من أول الأمر: نسيئة بكذا فقط وكان أكثر من سعر يومه، مع أن المتمسكين بهذه الرواية يمنعون من هذه الصورة، ولا يدل الحديث على ذلك، فالدليل أخص من الدعوى.

(5 / 180) (باب بيعتين في بيعة،الناشر: دار الحديث، مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں