بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں کے معاملے کی ایک صورت


سوال

میں نے ایک سال پہلے عبداللہ کو قسطوں پر موٹر سائیکل دی تھی، ایک سال وہ قسطیں بھرتا رہا، اب وہ کہہ رہا ہے کہ آپ یہ موٹر سائیکل لے کر مجھے نئی موٹر سائیکل دے دیں اور میں آپ کو نقد تیس ہزار روپے دے دوں گا، جب کہ بقیہ قسطیں اپنی ترتیب پر ادا کرتا رہوں گا، آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ کیا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ اگر ناجائز ہے تو جائز صورت کیا ہوسکتی ہے؟ 

جواب

قسطوں پر موٹرسائیکل یا دیگر اشیاء لینا جائز ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ عقد کے وقت کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے اور یہ طے کرلیا جائے کہ خریداری نقد پر ہورہی ہے یا ادھارپر، اور ادھار کی مدت طے کرلی جائے، اور قسط میں تاخیر ہونے کی صورت میں کوئی اضافہ/ جرمانہ وصول نہ کیا جائے اور عقد میں یہ شرط نہ ہو کہ اگر قیمت جلدی ادا کردی گئی تو قیمت کم ہوگی۔ مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو یہ بیع ناجائز اور سود کے حکم میں ہوگی۔

واضح رہے کہ نقدی یا سونا چاندی قسطوں پر خریدنا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر قسطوں پر بائیک لینے کی صورت میں مذکورہ شخص نے شروع میں بائیک قسطوں پر ایک رقم متعین کر کے لی ہے اور اب وہی پوری قیمت ادا کرتا ہے اور اس کے بعد دوسرا معاملہ ایک رقم متعین طے کر کے ادھار یا نقد کرتا ہے جو پہلے معاملے کے ساتھ مشروط نہیں تھا تو یہ جائز اور درست ہے۔

"فتاوی شامی" میں ہے:

"لأن للأجل شبهاً بالمبيع، ألاترى أنه يزاد في الثمن لأجله".

( كتاب البيوع، باب المرابحة ۵/ ۱۴۲ ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں