بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر بیع کی شرائط


سوال

 کوئی چیز قسط پر لینا اسلام کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ جیسے لوگ قسط پر چیزیں لیتے ہیں ؟ زمین بھی قسط پر لے سکتے ہیں یا نہیں، اسلام کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ہر شخص  کے  لیے اپنی مملوکہ  چیز چاہے منقولی یا غیر منقولی ہو    اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور ادھار دونوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان  فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے ، اسی  طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے،تاہم سونا ،چاندی کی خریدوفروخت میں ادھار جائز نہیں،باقی اس کے علاوہ کی چیزوں کی خریدوفروخت اگر قسطوں پر ہو تو درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے :

1۔قسط کی رقم متعین ہو

2۔ مدت متعین ہو۔

3۔معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

4۔  اور عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو۔

5۔اور ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا،

ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :

"‌البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح  يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط".

(الفصل الثانی فی بیان المسائل المتعلقۃ فی البیع  بالتاجیل والنسیئۃ،ج:1ص:228،ط:دار الجیل)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي شرح الآثار: ‌التعزير ‌بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(کتاب الحدود ،باب التعزیر،ج:4،ص:62،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق."

(كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنه وحكمه وشرائطه،ج:3،ص:217،ط. رشيديۃ)

درر الحكام شرح مجلة الاحكام میں ہے:

"(المادة 121) (الصرف بيع النقد بالنقد) يعني أن ‌بيع ‌الصرف هو بيع الذهب المسكوك أو غير المسكوك بذهب أو فضة والفضة بذهب أو مثلها فضة.فلو أعطى شخص آخر جنيها مصريا أو ليرة عثمانية وأخذ منه مقابلها نقودا فضية أو نقودا ذهبية من (أجزاء الليرة) فذلك البيع هو ‌بيع ‌الصرف."

(البيوع،المادة120،ج:1،ص:113،ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں