بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شعبان 1446ھ 17 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر سونے کی خریدوفروخت کا حکم


سوال

محترم موجودہ مہنگائی کے دور میں بیٹی اور بہن کے لیے زیورات خریدنا بہت مشکل ہے، کچھ سنار قسطوں پر زیورات دیتے ہیں اور زیورات کی کل قیمت سے زیادہ کچھ پرسنٹ چارج کرتے ہیں ، آیا ہمارے لیے اس طرح کی خریداری جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سونے چاندی کی روپیہ پیسے کے بدلے  خرید وفروخت شرعاً "بیعِ صرف" کہلاتی ہے، اور بیعِ صرف کا حکم یہ ہے کہ اس میں دونوں طرف سے نقد ادائیگی ضروری ہے، اس لیےسونے چاندی کے معاملات میں لین دین،  نقد  اور ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں قیمت کی رقم دینا اور سونا  چاندی وصول کرنا  ضروری ہے اور کسی بھی جانب سے ادھار، ربوا کے  زمرے میں آنے کی بنا پر ناجائز و حرام ہے، لہذا صورت ِ مسئولہ میں سونا قسطوں پر خریدنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية."

(کتاب  الصرف ،الباب الاول فی تعریف  الصرف ،ج:3،ص:217،المطبعۃ الکبرٰی الامیریۃ)

درر الحكام شرح مجلة الاحكام میں ہے:

"(المادة 121) (الصرف بيع النقد بالنقد) يعني أن ‌بيع ‌الصرف هو بيع الذهب المسكوك أو غير المسكوك بذهب أو فضة والفضة بذهب أو مثلها فضة.فلو أعطى شخص آخر جنيها مصريا أو ليرة عثمانية وأخذ منه مقابلها نقودا فضية أو نقودا ذهبية من (أجزاء الليرة) فذلك البيع هو ‌بيع ‌الصرف."

(البیوع،ج:1،ص:120،دارالجیل)

فتاوی مفتی محمود ؒمیں ہے:

"سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ آج مثلاً سونے کا حاضر بھاؤ ۶۰۰ روپے فی تولہ ہے، ایک سنار ہم سے ۱۰ تولہ سونا مانگتاہے، ایک ماہ کے ادھار پر ہم ا س سے کہتے ہیں کہ میں تو ۶۴۰ روپے فی تولہ دوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ دے دو، رقم ایک ماہ میں ادا کردوں گا۔ ہم اس کو سونا دیتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ آج کے بھاؤ سے ہمیں ۱۰ تولہ سونے میں ۴۰۰ روپے بچت ہوتی ہے، کیا یہ ہمارے لیے جائز ہے یا نہیں؟
جواب:یہ تو بیع صرف ہے، اس میں اُدھار جائز نہیں۔بیع سابق صحیح نہیں ہے، فاسد ہے، اس میں جو نفع ہوا ہے‘ خیرات کردیا جائے۔"

(کتاب البیوع ،ج:8،ص :401، جمعیۃ پبلیکیشنز، لاہور)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144601100045

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں