بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر سامان بیچنے والے کے لیے زکات کا حکم


سوال

میں قسطوں کا کاروبار کرتا ہوں،  نقد بازار سے سامان لے کر قسط پر بیچ دیتا ہوں اور روزانہ وصولی کرنے جاتا ہوں جس کا پٹرول کا خرچہ بھی ہوتا ہے۔ اور ایک بندہ میرے 35000  کھا کر بھاگ بھی گیا۔ اب جو وصولی ہوتی ہے اس سے میں دوبارہ سامان لے کر دے دیتا ہوں۔  میں 2 سال سے یہ کاروبار کر رہا ہوں،  لیکن میرے پاس کبھی پیسے جمع نہیں ہوئے۔  لیکن جو لوگوں نے مجھے دینے ہیں وہ تقریباً 3 لاکھ  ہیں،  لیکن وہ کبھی بھی میرے پاس اکٹھے نہیں آئیں گے؛ کیوں کہ  جیسے  تھوڑے سے آتے ہیں، خرچ ہو جاتے ہیں، کبھی اپنی ضروریات اور کبھی  دوبارہ  سامان لے کر بیچ دینا۔ اب کیا مجھ پر زکات فرض ہے؟

جواب

آپ  جب سے صاحبِ نصاب  ہوئے ہیں یعنی جب  سے آپ کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی  مالیت کے برابر رقم یا مالِ تجارت جمع ہوا ہے، اس وقت سے زکات کا سال مکمل ہونے کے بعد اگر آپ کے  ہاتھ  میں کچھ نہیں ہے،  لیکن آپ کو 3 لاکھ روپے وصول کرنے ہیں تو ایسی صورت میں جو کچھ سونا، چاندی اور سامانِ تجارت آپ کے پاس ہو، (یعنی جو سامان ابھی فروخت نہیں ہوا) اس کی موجودہ قیمت سمیت  3  لاکھ روپے کے مجموعے پر زکات دینا آپ پر لازم ہے۔ البتہ جو پیسے ابھی وصول نہیں ہوئے، مثلاً  3  لاکھ روپے، ان کی زکات کی ادائیگی اس وقت تک موخر کی جاسکتی ہے جب تک وہ وصول نہ ہوں، اور جیسے جیسے وصول ہوتے جائیں ان میں سے زکات ادا کرتے رہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 305):

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورًا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهمًا يلزمه درهم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں