اگر میں ایک چیز یعنی موٹر سائیکل وغیرہ نقد قیمت پر خریدلوں اور اس کو آگے کسی اور بندے پر بیچ دوں اور پھر وہ اسے آگے بیچ دے پیسوں کی ضرورت کیلئے اور جس بندے کو میں نے بیچا ہے، وہ مجھے قسط پر پیسے دے دے، جس میں وہ تھوڑا زیادہ رقم دے گا تو کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں آپ نے موٹر سائیکل جس قیمت پر بیچی ہے، خریدار سے وہی قیمت قسطوں میں وصول کرنے کا حق ہے ۔ مثلاً آپ نے آگے ادھار پر 50 ہزار روپے کی بیچی، تو اب آپ کے لیے 50 ہزار ہی لینا جائز ہے۔ اس سے زائد رقم قسطوں میں وصول کرنا ناجائز ہے۔
ملحوظ رہے کہ اگر مذکورہ معاملہ قرض دے کر اضافی رقم لینے کے حیلے کے طور پر کیا گیا ہے تو یہ ناجائز ہوگا۔
المبسوط للسرخسي میں ہے :
"و إذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا و بالنقد بكذا، أو قال: إلى شهر بكذا و إلى شهرين بكذا، فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم و لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع، و مطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، و هذا إذا افترقا على هذا، فإن كان يتراضيان بينهما و لم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، و أتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."
(كتاب البيوع، باب البيوع الفاسدة، ج13، ص7، دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405101371
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن