بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر مروجہ سودی شرح کا اعتبار کرتے ہوئے زیادہ قیمت میں بیچنا


سوال

اگر یہاں جرمنی میں  کار کی پرائس کیش میں 10000 یورو اور 2 سال قسطوں پر 15000 یورو ہو جاتی ہے ،  کار کی دو سال کی اماؤنٹ فکس ہوتی ہے ،  لیکن جو کار ڈیلر 5000 یورو زیادہ لے رہا ہے، اس کی کیلکولیشن کرتے ہوئے انٹرسٹ اماؤنٹ کو شامل کرتا ہے   تو میرا سوال یہ ہے کے کار کی ایکسٹرا اماؤنٹ کیلکولیشن میں  انٹرسٹ کی اماؤنٹ شامل کرنے سے کار قسطوں پر حلال ہوئی یا حرام ؟ کیوں کہ حلال قسطوں کی طرح کار کی اماؤنٹ فکس ہوتی ہے !

جواب

واضح رہے کہ  ہر شخص  کے  لیے اپنی مملوکہ  چیز  کو  اصل قیمت میں کمی زیادتی کے  ساتھ  نقد  اور ادھار دنوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان  فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے ، اسی  طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے،  اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“ یعنی قسطوں پر خریدوفروخت  کہتے ہیں۔

نیز  قسطوں پر خرید وفروخت میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

1- معاملہ  نقد  کیا جارہا ہے یا ادھار، دونوں میں سے ایک صورت عقد کے وقت ہی طے کردی جائے۔

2- عقد کے وقت  فروخت کردہ چیز کی مجموعی قیمت مقرر ہو۔

3- قسط کی رقم متعین ہو۔

4- ادائیگی کی مجموعی  مدت اور ہر قسط کی مدت متعین ہو۔

5-  کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو۔   اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں  اگر کار ڈیلر نے  اپنی ملکیت میں موجود گاڑی کو اوپر ذکر کی گئی شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے فروخت کیا   مذکورہ معاملہ جائز ہے، اگر چہ قیمت کا تعین کرتے ہوئے اس نے شرح سود کو   ملحوظِ خاطر رکھا ہو؛ کیوں کہ اس نے ادھار معاملہ کی شرائط کا لحاظ رکھا ہے، اور سودی معاملہ نہیں کیا۔ لیکن اگر سائل کی  'انٹرسٹ اماونٹ شامل' کرنے سے یہ مراد ہے کہ معاہدہ میں انٹرسٹ (شرح سود) طے کیا جاتا ہے، یا وہ گاڑی اس کی ملکیت میں نہیں ہوتی، بلکہ بینک کی طرح وہ لیزنگ کا معاملہ کرتا ہے تو مذکورہ معاملہ ناجائز  ہے۔

المبسوط للسرخسي (13 / 7):

"و إذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا و بالنقد بكذا أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں