بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ (اضافی رقم) لینا


سوال

زید نے ایک رکشہ عمرو  کو  ماہ وار قسطوں پر فروخت کیا  ، اب عمرو  نے کچھ قسطیں دینے کے بعد تقریبا چھ ماہ سے قسطیں دینا بند کردی ہیں ، عمرو نہ تو فون اٹھاتا ہے اور نہ ہی  اپنا عذر بیان کرتا ہے ،عمرو نے گاڑی پر سے نمبر پلیٹ بھی ہٹائی ہوئی ہے ،  نیز  گاڑی سے  باقاعدہ  نفع بھی  کما رہا ہے ،لیکن بائع کو اس کا حق نہیں دیتا  ، اب زید نے بکر  سے  گاڑی ضبط کرنے کا کہا ، تین دن میں گاڑی  کوضبط کرلیا ،اب بکر  (ثالث) زید سے  خرچہ  کا مطالبہ کر رہا ہے(دو ،تین ہزار روپے )، اب زید(بائع)  نے بکر(ثالث) کو پیسے دے دیئے ۔

یہ تین یا دو ہزار روپے تو عمرو کی وجہ سے آیا ہے ، اگر عمرو و قت پر پیسے یعنی قسط لے آتے تو یہ مسئلہ پیش نہیں  آتا، تو زید نے پھر عمرو سے   قسطوں کے علاوہ  جو اضافی     پیسے  لئے ، یہ پیسہ لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں گاڑی کی خریداری کے وقت زید اور  عمرو کے درمیان مقررہ مدت میں  جو قیمت طے پائی تھی ،شرعی اعتبار سے  عمرو  کو اُسی مقررہ مدت میں گاڑی کی رقم ادا کرنا ضروری تھا،تاہم اگر  عمرو کسی وجہ سے بروقت رقم ادا نہیں کرپارہا تو   زید  کے لیے مذکورہ قیمت میں اضافہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے ، نیز زید کا  بکر کے ذریعہ گاڑی ضبط کرنا  شرعاً درست نہیں  تھا،بلکہ قانونی چارہ جوئی  کر کے اپنا حق وصول کرنا تھا ، باقی گاڑی ضبط کرنے میں جو رقم خرچ ہوئی ہے وہ زید عمر سے نہیں لے سکتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن ‌الأجل ‌في ‌نفسه ‌ليس ‌بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا، فاعتبر مالا في المرابحة احترازا عن شبهة الخيانة، ولم يعتبر مالا في حق الرجوع عملا بالحقيقة بحر."

 (‌‌كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:5، ص:142، ط:سعید)

فتاوی  شامی   میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ۔والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(کتاب الحدود،‌‌ باب التعزير، ج:4، ص:61، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101878

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں