بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں کے کاروبار اور ایڈوانس لینے کے بعد نفع کا حکم


سوال

میری موبائل شاپ ہے ، ہم موبائلز نقد اور قسطوں پر فروخت کرتے ہیں ، آیا یہ کاروبار جائز ہے یا ناجائز ؟

دوسرا یہ کہ اگر ایک موبائل کی قیمت "20000" روپے ہیں تو اس پر ہم % 30منافع لیتے ہیں اور گاہک سے 5000 ایڈوانس رقم لیتے ہیں،  میرا سوال یہ ہے کہ اب ہم   "20000"   روپے  پر منافع لیں گے    یا "15000" روپے پر منافع لیں گے کیونکہ 5000 تو ہم نے کسٹمر سے ایڈوانس لے لیے تھے ؟

جواب

واضح رہے کہ  ہر شخص  کے  لیے اپنی مملوکہ  چیز  کو  اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور ادھار دونوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان  فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے ، اسی  طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے،  اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“ یعنی قسطوں پر خریدوفروخت  کہتے ہیں۔

قسطوں پر خرید وفروخت میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

1.قسط کی رقم متعین ہو۔

2.مدت متعین ہو۔

3.معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

4 .عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو ۔

5. ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے۔

6. جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

ان  تمام شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے کاروبار میں اگر واقعتا مذکورہ شرا ئط کی پابندی کی جاتی ہے تو کاروبار جائز ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں سائل اصل قیمت یعنی (20000) کے مطابق نفع لے سکتا ہے ،اس لیے  ایسے معاملہ میں   لی گئی رقم کا اعتبار نہیں کیا جاتا، بلکہ جو   اصل قیمت  ہوتی ہے  (یعنی جتنے  کی  کوئی چیز  فروخت کنندہ کوپڑتی ہے) وہی  گاہک کو بتا کر پھر اس پر منافع  رکھ  فروخت کی جاتی ہے۔

غرض کہ سودا کرتے وقت کل قیمت مقرر کرنا ضروری ہے، پھر اس کے بعد وصولی کی ترتیب بنالیں، مثلاً اسی وقت قیمت میں سے پانچ ہزار وصول کرلیااور باقی رقم کی قسطیں بنادیں، تو یہ صحیح ہے۔

دررالحكام في شرح مجلة الأحكام  میں ہے :

"‌البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط."

(الكتاب الأول البيوع، الفصل الثانی (المادة: 245،246)،1/ 228، ط:دار الجیل)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي شرح الآثار: ‌التعزير ‌بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

 (کتاب الحدود، باب التعزیر، ج:4، ص:62، ط:سعید)

وفيه أيضا:

" لأن للأجل شبها بالمبيع. ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجله."

(کتاب البیوع، باب المرابحة، ج:5، ص:142، ط:سعید)

فتاوى  ہنديہ میں ہے :

"المرابحة بيع بمثل الثمن الأول وزيادة ربح والتولية بيع بمثل الثمن الأول من غير زيادة شيء والوضيعة بيع بمثل الثمن الأول مع نقصان معلوم والكل جائز."

(‌كتاب البيوع، الباب ‌الرابع ‌عشر ‌في ‌المرابحة، ج:3، ص:160، ط:رشیدیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو اشترى شيئا ‌نسيئة لم يبعه مرابحة حتى يبين؛ لأن للأجل شبهة المبيع وإن لم يكن مبيعا حقيقة؛ لأنه مرغوب فيه ألا ترى أن الثمن قد يزاد لمكان الأجل."

(کتاب البیوع، فصل في بيان ما يجب بيانه في المرابحة وما لا يجب،5/ 224، ط:دار الکتب العلمیة)

وفي درر الحكام في شرح مجلة الأحكام   :

"يعتبر في المرابحة والتولية والوضيعة الثمن الذي عقد عليه البيع، ولا يعتبر الثاني الذي كان بدلا عن الثمن الأول."

(الكتاب الأول البيوع، لاحقة، المبحث الأول، ج:1، ص:373، ط:دار الجيل)

وفي البدائع الصنائع :

"وأما شرائطه (فمنها) ما ذكرنا وهو أن يكون الثمن الأول معلوما للمشتري الثاني؛ لأن ‌المرابحة ‌بيع ‌بالثمن ‌الأول مع زيادة ربح."

(كتاب البيع، فصل في شرائط الصرف، المرابحة وتفسيرها وشرائطها،ج:5، ص:220، ط:دارالكتب العلمية)

وفي الدر المختار:

"(المرابحة)...(بيع ما ملكه)....(بما قام عليه وبفضل)."

 (‌‌كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:5، ص:133,132، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408100973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں