بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بیعِ مؤجل میں قسطوں کی مدت ختم ہونے تک ٗ بائع کا کرایہ کی مد میں اضافی رقم لینے کا حکم


سوال

جناب میں نے ایک بندے کو گاڑی بعوض ۲۵۰۰۰ ریال فروخت کی، اور اس کے ساتھ خط لکھا، مگر اس بندے نے کہا کہ اس رقم کی ادائیگی تک ٗ میں آپ کو گاڑی کا ۱۰۰۰ ریال کرایہ یعنی رینٹ دوں گا، جب میں رقم ادا کردوں گا، اس دن سے رینٹ ختم ہوگا۔

تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ راہ نما ئی فرمائیں۔

جواب

بصورتِ مسئولہ سائل اور گاڑی کے خریدار کے درمیان ایجاب وقبول ہوتے ہی ٗ گاڑی سائل کی ملکیت سے نکل کر خریدار کی ملکیت میں داخل ہوگئی ہے، اور چوں کہ یہ گاڑی اب سائل کی ملکیت میں رہی نہیں ہے، اس لیے سائل کے لیے اس گاڑی کا کرایہ خریدار سے لینا جائز نہیں ہے، مزید یہ کہ اس میں ایک عقد میں دو عقد ہو رہے ہیں، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

نیز چوں کہ یہ کرایہ مبیع (گاڑی) کے ثمن سے اضافی ایک رقم ہے، جس کو مذکورہ عقد میں گاڑی کے ثمن میں محسوب بھی نہیں کیا جارہا ہے، اس لیے مذکورہ معاہدہ ایک سودی معاملہ ہوگا، اور شرعاً ایسا معاملہ کرنا نا جائز وحرام ہے، لہذا سائل صرف وہی رقم لینے کا حق دار ہے، جس پر عقد ہوا ہے، اس سے زائد مشروط طور پر کسی بھی رقم کا حق دار نہیں ہے۔

"الفتاوي الهندية"  میں ہے:

"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا وإن كان موقوفا فثبوت الملك فيهما عند الإجازة كذا في محيط السرخسي."

(کتاب البیوع، الباب الأول، ج: ٣، ص: ٣، ط: رشيدية)

"رد المحتار على الدر المختار"  میں ہے:

"(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما) . . . (كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه نفع للبائع.

(قوله مثال لما فيه نفع للبائع) ومنه ما لو شرط البائع أن يهبه المشتري شيئا أو يقرضه أو يسكن الدار شهرا أو أن يدفع المشتري الثمن إلى غريم البائع، لسقوط مؤنة القضاء عنه."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج: ٥، ص: ٨٥، ط: سعید)

"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام"  میں ہے:

"ولو ملك المستأجر عين المأجور بإرث، أو هبة يزول حكم الإجارة تنفسخ الإجارة على صور سبع: ١ - لو ملك المستأجر أثناء مدة الإجارة كل المأجور، أو بعضه بإرث، أو هبة صحيحة، أو شراء صحيح، أو فاسد وقبض يزول حكم الإجارة عن المقدار الذي يملكه؛إذ لا تلزمه الأجرة في مقابلة انتفاعه بما هو مملوك له. مثلا: إذا اشترى المستأجر أثناء مدة الإجارة المأجور فقد سقطت عنه الأجرة كذلك إذا ملك بعضه؛ فلا يبقى حكم للإجارة على ذلك البعض."

(الکتاب الثاني الإجارة، الباب الثاني، الفصل الأول، المادة: ٤٤٢، ج: ١، ص: ٤٨٦، ط: دار الجيل)

"الفتاوي التاتارخانية"  میں ہے:

"وإذا ‌ملك ‌المستأجر العين بميراث أو هبة أو نحو ذلك بطلت الإجارة."

(كتاب الإجارة، الفصل التاسع عشر، ج: ١٥، ص: ١٧٩، رقم المسألة: ٢٢٦٦٣، ط: مكتبة فاروقية)

"المحيط البرهاني في الفقه النعماني"  میں ہے:

"ذكر محمد رحمه الله في كتاب الصرف عن أبي حنيفة رضي الله عنه: أنه كان يكره ‌كل ‌قرض فيه جر منفعة، قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد، وذلك بأن أقرضه غلته ليرد غلته صحاحا أو ما أشبه ذلك، وإن لم يكن مشروطا فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."

(کتاب الإستحسان والكراهية، الفصل التاسع والعشرون، ج: ٥، ص: ٣٩٤، ط: دار الكتب العلمية)

’’تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ میں ہے:

’’کسی آدمی نے دوسرے شخص کو ایک چیز ادھار یا قسطوں میں فروخت کردی، اور چیز اس کے قبضے میں دے دی، لیکن یہ شرط رکھ دی کہ جب تک قسطیں ختم نہیں ہوتیں، اس وقت تک آپ کو اس چیز کا کرایہ بھی ادا کرنا پڑے گا، یہ ناجائز ہے، کیوں کہ اس فروخت کردہ چیز پر خریدار سے کرایہ لینا سود ہے، جو ناجائز ہے۔‘‘

(ج: ۵، ص: ۳۰۳، حرف کاف، کرایہ لینا قسطیں ختم ہونے تک، ط: بیت العمار)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101379

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں