بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی طرف سے گھر کے اخراجات میں بچت کر کے جمع کردہ رقم کا مالک والد ہی ہے


سوال

ایک لڑکی جو کہ غیر شادی شدہ ہے، اس کے والد کی چھوٹی سی قسطوں کی دکان ہے ،جس سے بمشکل گھر کا گزارہ ہوتا ہے،اور ماہانہ خرچہ سولہ ہزار ملتا ہے، جس میں گھر کے بل، راشن سبزی مشکل سے ادا ہوتے ہیں اور دودھ وغیرہ نہیں لیا جا سکتا،گھر میں کل چھ افراد ہیں، اور خرچ چھوٹی بیٹی کے پاس ہوتا ہے، ایک بیٹی شادی شدہ ہے،غیر شادی شدہ لڑکی جس کے ہاتھ ماہانہ خرچہ ہوتا ہے ، وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ پیسے بچا کر رکھ لیتی ہے، کیونکہ والد کی ماہانہ آمدن ہی اتنی ہے، اور شادی کی نیت سے پیسے جمع کر رہی ہے اور والد کے پاس بالکل گنجائش نہیں ہے ۔اس طرح تقریباً پانچ سال سے کچھ زائد عرصے میں اس لڑکی نے تقریباً ڈھائی لاکھ جمع کیے ہیں، یہ پیسے کچھ گھر خرچ سے اور کچھ پیسے والد کی دکان پر کوئی سامان قسطوں پر دینے سے جو نفع حاصل ہوا اس سے جمع ہوئے، واضح رہے کہ یہ قسطوں پر سامان گھر کے جمع شدہ خرچ میں سے دیا گیا ہے اور لڑکی کے نام الگ سے کھاتہ بنا لیا تاکہ شادی کے لیے کچھ پیسے جمع ہو سکیں اور یہ کھاتے ان حالات میں کھلے جب والد کے پاس دینے کے  لیےکوئی سامان کا بندوست نہ تھا۔ لڑکی کی والدہ کے پاس اپنی شادی کا ایک تولہ سونا موجود تھا جو انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں میں برابر بانٹ دیا اور دونوں بیٹیوں کو تقریباً چھ چھ ماشے ملا ہے ، اس غیر شادی شدہ لڑکی کے پاس اب تقریباً چھ ماشے سونا اور تقریباً ڈھائی لاکھ روپے ہیں اور دکان پر ایک کھاتہ بھی چل رہا ہے جس کی ادائیگی تقریباً جنوری تک مکمل ہو جائے گی ۔ اب سوال یہ ہے کہ زکوٰۃ کس طرح ادا ہوگی؟ آیا کہ ڈھائی لاکھ اور چھ ماشے سونا کی قیمت کو ملا کر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟ یا جو رقم ابھی ملنا باقی ہے اس رقم کو بھی ساتھ ملایا جائے گا ؟ اور قربانی کا کیا حکم ہوگا ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی (جو کہ اپنے والد کے گھر کا نظام سنبھالتی رہی ) نے اپنے والد کی طرف سے گھر ، خرچہ کے لیے ملنے والی رقوم سے بچت کر کے جتنی رقم جمع کی وہ لڑکی کی ملکیت نہیں،بلکہ اس کے والد کی ملکیت ہے ،اس کی شادی کے انتظام  کی ذمہ داری بھی والد کی ہے ،لہذا اس رقم کی زکوۃ لڑکی پر نہیں آئے گی، بلکہ والد پر آئے گی ،جب سے والد کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے  چاندی کی قیمت کے برابر رقم جمع ہو ئی، اس کے بعد سے سال پورا ہونے پر زکاۃ آئے گی ،لہذا اس کے بارے میں والد کو آگاہ کرنا لڑکی کی ذمہ داری ہے ،باقی لڑکی کے پاس جو چھ ماشہ سونا ہے ،اس کے ساتھ لڑکی کی ملکیت میں کوئی نقدی یا چاندی نہیں ہے تو اس پر زکوۃ اور قربانی لازم نہیں ،اور اگر کوئی نقدی یا چاندی ہو اور مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچے تو سال گزرنے پر اس پر زکوۃ آئے گی اور قربانی بھی آئے گی۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة۔"

(کتاب الاضحیہ،ج:5،ص:292،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار۔"

(کتاب الصوم ،باب صدقۃ الفطر ،ج:1،ص:191،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں