بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں 200 روپے غرباء فنڈ میں جمع کرانے کی شرط لگانا


سوال

اگر کسی نے قسطوں پر کوئی چیز کسی سے خریدی ہو، قسط کی ادائیگی کی مقررہ تاریخ تک قسط کی ادائیگی نہ ہو، تو بائع کی جانب سے یہ شرط لگائی جائے کہ: " اگر آپ قسط میں تاخیر کریں۔ مثلاً اگر 15 تاریخ تک بھی ادائیگی نہیں کریں۔ تو دو سو روپے آپ کو صدقہ کرنا  ہوگا، جو  آپ ہمارے غراباء فنڈ میں جمع کریں گے"۔ اور  بائع اس رقم کو غراباء میں تقسیم کرتا ہے۔

اس شرط  کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کوئی دین دار  استطاعت کے باوجود صاحب حق کا حق وقت پر ادا نہ کرتا ہو، تو  بالإجماع ایسے شخص  کا مواخذہ کیا جا سکتا ہے،  تاہم ایسے  شخص کو قید و بند کی سزا دلوانے کی تو بالإجماع اجازت ہے، تاہم اس پر کسی قسم کا مالی جرمانہ کسی بھی نام سے عائد کرنے کی شرعا اجازت نہیں،  لہذا صورت مسئولہ میں  قسطوں کی ادائیگی میں مقررہ تاریخ سے تاخیر    کی وجہ سے غرباء   فنڈ  میں  متعین رقم صدقہ کے نام پر  جمع کرانے کی شرط لگانا مالی جرمانے کے قبیل میں  ہی شمار ہوگا،  اس رقم کو  صدقہ  قرار دینا درست نہ ہوگا،   اس لئے کہ صدقہ دو قسم کا ہوتا  ہے؛  ایک قسم  صدقہ واجبہ کہلاتی ہے،  اور دوسری قسم صدقہ نافلہ کہلاتی ہے۔ یعنی  مسلمان اپنے اوپر کسی مالی ادائیگی کو  اس طور پر لازم کرے کہ وہ کسی دوسرے امر کے ساتھ معلق ہو، یعنی اگر ایسا ہوا تو ہزار روپے ادا کروں گا وہ صدقہ واجبہ ( نذر) کہلاتا ہے ، اور  اگر غیر مشروط و غیر معلق ہو تو وہ صدقہ نافلہ کہلاتا ہے۔

پس صدقہ واجبہ  کی ادائیگی دیانتاً  تو  اس شخص پر لازم ہوتی ہے، اور البتہ  اس کی ادائیگی  پر اسے قضاءً مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے، جبکہ صدقہ نافلہ محض تبرع ہوتا ہے، اس کی ادائیگی نہ دیانتاً واجب ہوتی ہے، اور نہ ہی قضاءً ، البتہ اس کی ادائیگی تک کا تعلق اس شخص کی صوابدید  سے ہوتا ہے،   جس کے لیے نفلی صدقہ دینے والے کی  دلی رضامندی  ضروری ہوتی ہے،  جبراً یا دلی رضامندی کے بغیر کسی سے نفلی صدقہ وصول کرنا جائز نہیں ہوتا، پس مسئولہ صورت میں قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں  متعینہ رقم صدقہ  کرنے پر مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔

أحكام القرآن للجصاصمیں ہے:

"وفي الآية دلالة على أن الغريم متى امتنع من أداء الدين مع الإمكان كان ظالما، ودلالتها على ذلك من وجهين: أحدهما: قوله تعالى: {وإن تبتم فلكم رؤوس أموالكم} فجعل له المطالبة برأس المال، وقد تضمن ذلك أمر الذي عليه الدين بقضائه وترك الامتناع من أدائه، فإنه متى امتنع منه كان له ظالما ولاسم الظلم مستحقا، وإذا كان كذلك استحق العقوبة وهي الحبس. والوجه الآخر من الدلالة عليه: قوله تعالى في نسق التلاوة: {لا تظلمون ولا تظلمون} يعني والله أعلم: لا تظلمون بأخذ الزيادة ولا تظلمون بالنقصان من رأس المال; فدل ذلك على أنه متى امتنع من أداء جميع رأس المال إليه كان ظالما له مستحقا للعقوبة. واتفق الجميع على أنه لا يستحق العقوبة بالضرب، فوجب أن يكون حبسا، لاتفاق الجميع على أن ما عداه من العقوبات ساقط عنه في أحكام الدنيا.

وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل ما دلت عليه الآية، وهو ما حدثنا محمد بن بكر قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي قال: حدثنا عبد الله بن المبارك، عن وبر بن أبي دليلة، عن محمد بن ميمون، عن عمرو بن الشريد، عن أبيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لي الواجد يحل عرضه وعقوبته" قال ابن المبارك: يحل عرضه: يغلظ له، وعقوبته: يحبس. وروى ابن عمر وجابر وأبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "مطل الغني ظلم، وإذا أحيل أحدكم على مليء فليحتل" فجعل مطل الغني ظلما، والظالم لا محالة مستحق العقوبة وهي الحبس، لاتفاقهم على أنه لم يرد غيره. وحدثنا محمد بن بكر قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا معاذ بن أسد قال: أخبرنا النضر بن شميل قال: أخبرنا هرماس بن حبيب رجل من أهل البادية عن أبيه عن جده قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم بغريم لي، فقال لي: "الزمه" ثم قال: "يا أخا بني تميم ما تريد أن تفعل بأسيرك؟ " وهذا يدل على أن له حبس الغريم لأن الأسير يحبس; فلما سماه أسيرا له دل على أن له حبسه. وكذلك قوله: "لي الواجد يحل عرضه وعقوبته" والمراد بالعقوبة هنا الحبس لأن أحدا لا يوجب غيره. "

( من سورة البقرة، ١ / ٥٧٤ - ٥٧٥، ط: دار الكتب العلمية )

رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:

’’وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال‘‘.

(كتاب الحدود، باب التعزير، ٤/ ٦١ ط: دار الفكر)

شرح مشكل الآثار للطحاويمیں ہے:

"٢٨٢٣ - وكما حدثنا الربيع بن سليمان بن داود قال: حدثنا أصبغ بن الفرج قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا عبد الملك بن الحسن، عن عبد الرحمن بن أبي سعيد، عن عمارة بن حارثة، عن عمرو بن يثربي قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " لا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه " قال: قلت يا رسول الله , إن لقيت غنم ابن عمي آخذ منها شيئا؟ فقال: " إن لقيتها تحمل شفرة , وأزنادا بخبت الجميش فلا تهجها " -

قال أبو جعفر: ففيما روينا إثبات تحريم مال المسلم على المسلم."

( باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الضيافة من إيجابه إياها ومما سوى ذلك، ٧ / ٢٥٢، ط: مؤسسة الرسالة )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407101152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں