اگر آج کل حاکمِ وقت یا قاضی کسی مجرم کے خلاف قصاص کا حکم جاری کرے، تو کیا اس پر عمل صرف تلوار کے ذریعے ہی ضروری ہے؟ یا جدید دور میں مشین گن، بندوق کے ذریعے بھی قصاص نافذ کیا جا سکتا ہے؟جبکہ بعض روایات میں "لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّیْفِ" (قصاص صرف تلوار سے ہوگا) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ تو کیا اس روایت سے صرف تلوار کے استعمال کی تخصیص مراد ہے؟ یا یہ محض اُس وقت کے معروف ہتھیار کا ذکر ہے؟
شریعتِ مطہرہ میں قصاص کے جو اصول متعین کیے گئے ہیں، ان کا اصل مقصد مقتول کی جان کا بدلہ لینا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ شریعت کا مزاج یہ بھی ہے کہ قصاص ایسے آلہ سے لیا جائے جو جان لینے میں جلد مؤثر ہو، اور مقتول کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔اسی حکمت کے تحت احادیثِ مبارکہ میں "تلوار" کا ذکر آیا ہے، کیونکہ تلوار ایسا ہتھیار ہے جو گردن پر لگتے ہی دماغ کی رگوں اور لہروں کو فوری طور پر کاٹ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں مقتول کو اذیت محسوس نہیں ہوتی۔ گویا تلوار کے ذریعہ قصاص لینا محض اس کے آلہ ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کی تاثیر، تیزی اور کم تکلیف دہ ہونے کی بنیاد پر ہے۔ یہی شریعت کا مزاج اور مصلحت ہے۔
لہٰذا اگر آج کے دور میں تلوار کے علاوہ کوئی ایسا آلہ موجود ہو جو تیز دھار ہو، جان لینے میں مؤثر ہو، اور مقتول کو کم سے کم اذیت دے—مثلاً دھاری دار خنجر یا ایسا برقی آلہ جس سے گردن فوری طور پرمکمل الگ ہو جائے—تو ایسے آلے سے بھی قصاص لینا شرعاً جائز ہے، بلکہ افضل ہے۔
رہی بات گن یا پستول وغیرہ سے فائر کی جانے والی گولیوں کی، تو اگرچہ وہ دل یا دیگر حساس حصوں پر لگ کر جان لینے میں مؤثر ہوتی ہیں، تاہم چونکہ ان کے لگنے سےگردن کی رگیں جو دماغ سے بقیہ بدن کا ربط رکھتی ہیں نہیں کٹتیں جس سے مقتول کو جان نکلنے تک شدید اذیت ہوتی ہے، اس لیے گولی سے قصاص لینا شرعاً جائز تو ہوگا، مگر تلوار یا تیز تر آلہ اس کے مقابلے میں افضل اور اولیٰ ہے۔
لہٰذا شرعی اصولوں کی روشنی میں قصاص کے نفاذ میں اصل مقصد مؤثر اور کم تکلیف دہ آلہ کا استعمال ہے، چاہے وہ تلوار ہو یا اس کے قائم مقام کوئی دوسرا جدید آلہ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"لأن القتل اسم لفعل مؤثر في فوات الحياة عادة،"
(وجوب القصاص وشرائطہ،ج:7،ص:234 ،ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولا يقاد إلا بالسيف) وإن قتله بغيره خلافا للشافعي. وفي الدرر عن الكافي: المراد بالسيف السلاح. قلت: وبه صرح في حج المضمرات حيث قال: والتخصيص باسم العدد لا يمنع إلحاق غيره به، ألا ترى أنا ألحقنا الرمح والخنجر بالسيف في قوله عليه الصلاة والسلام «لا قود إلا بالسيف» فما في السراجية: من له قود قاد بالسيف، فلو ألقاه في بئر أو قتله بحجر أو بنوع آخر عزر وكان مستوفيا يحمل على أن مراده بالسيف السلاح والله أعلم."
(باب ما یوجب القود ومالا یوجبہ، ج :4، ص: 537، ط: سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا يستوفى القصاص إلا بالسيف ونحوه كذا في الكافي حتى إن من حرق رجلا بالنار، أو غرقه بالماء تضرب علاوته بالسيف، وكذلك إذا قطع طرف إنسان ومات تحز رقبته بالسيف، ولا يقطع طرفه، وكذلك إن شجه هاشمة، ومات تقطع علاوته بالسيف هكذا في محيط السرخسي"
(الباب الثانی فی من یقتل قصاصاً و من لایقتل،ج: 6،ص:3، ط :دار الفكر بيروت)
کفایت المفتی میں ہے:
(سوال) تلوار سے استیفائے قصاص میں بسا اوقات بلکہ ہمیشہ یہ صورت پیش آتی ہے کہ دو تین مرتبہ بھی تلوار مار نے ہے جب گردن علیحدہ نہیں ہوتی تو اس کو بحالت گر جانے کے تلوار کو بطور چھری کے گردن پر چلایا جاتا ہے گو یا ذبح کیا جاتا ہے تو اگر استیفائے قصاص تلوار سے نہ کیا جائے بلکہ بجائے تلوار
کوئی دوسرا آلہ دھار دار ایسا استعمال کیا جائے کہ وہ آلہ قاتل کی گردن کے محاذ میں اوپر سے چھوڑا جائے اور وہ آلہ ایسا تیز ہوا اور اس کے ساتھ بوجھ ہو کہ یکا یک کردن قاتل پرگرے اور فورا اپنی تیزی اور ثقل کی وجہ سے گردن کاٹ کر الگ کر دے یہ صورت شرعاً جائز ہوگی یا نہیں ؟
"(جواب ۱۸۱) حنفیہ نے قصاص کے بارے میں یہ ضرور کہا ہے ولا یقاد الا بالسیف یعنی استیفائے قصاص صرف تلوار کے ذریعہ سے کیا جائے مگر اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ قتل کی دوسری صورتوں کو مثلاً پتھر سے کچل دینا پانی میں غرق کردینا لاٹھیوں سے مار کرہلاک کردینا‘ اختیار نہ کیا جائے بلکہ دھار دار آلہ سے ہی قتل کیا جائے تلوار کی شخصی صورت مراد نہیں ہے بلکہ نیزہ و خنجر کی اجازت بصراحت موجود ہے وفی الدرر عن الکافی المراد بالسیف السلاح قلت و بہ صرح فی المضمرات حیث قال والتخصیص باسم العدد لا یمنع الحاق غیرہ بہ الا تری انا الحقنا الرمح والخنجر بالسیف فی قولہ علیہ السلام لا قود الا بالسیف انتھی (درمختار ) و الحق ان یکون المراد بالسیف فی الحدیث المزبور السلاح مطلقا بطریق الکنایۃ کما اشار الیہ المصنف بقولہ والمراد بہ السلاح ( فتح القدیر) و عن عبداللہ بن مسعود واخرجہ البہیقی ایضاً من الحدیث ابراہیم عن علقمۃ عنہ ولفظۃ لا قود الا بالسلاح ( عینی شرح بخاری)پس صور ت مسئولہ میں جس آلہ جارحہ کا ذکر ہے وہ سلاح میں داخل ہے اور بوجہ اس کے ذریعہ سے استیفائے قصاص میں مقتول کو زیادہ تکلیف نہیں بلکہ تلوار کی نسبت اس کے لئے آسانی ہے بجائے تلوار کے اس کو کام میں لانا اولیٰ ہوگا لقولہ علیہ السلام ان اللہ تبارک و تعالیٰ کتب الاحسان علی کل شئی فاذا قتلتم فاحسنوا القتلۃ ( الحدیث رواہ مسلم کذافی المشکوۃ) والمراد بہا المستحقۃ قصاصاً او حداً والا حسان فیہا اختیاراً سہل الطرق واقلہا ایلاماً ( مرقاۃ شرح مشکوۃ) محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘"
(کتاب الحدود والجنایات ،ج:2،ص:213،ط:دار الاشاعت )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100356
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن