نماز کی قراءت میں اگر {رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا} کے شروع میں ’’قالوا‘‘پڑھ دے تو کیا نماز ہو جائے گی؟
نماز میں اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اسی رکعت میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے، لیکن اگر تلفظ (حرکات وسکنات یامخارج وصفات) کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں {رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا} کے شروع میں ’’قالوا‘‘پڑھ لینے سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 632):
"ولو زاد كلمةً أو نقص كلمةً أو نقص حرفاً، أو قدمه أو بدله بآخر نحو من ثمره إذا أثمر واستحصد - تعالى جد ربنا - انفرجت بدل - انفجرت - إياب بدل - أواب - لم تفسد ما لم يتغير المعنى إلا ما يشق تمييزه كالضاد والظاء فأكثرهم لم يفسدها."
فتاوی عالمگیری :
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة".
(الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201547
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن