بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قراءت کے دوران تغیر فاحش واقع ہونے کی صورت میں نماز کا حکم


سوال

قرأت میں جب خطا فاحش واقع ہو جائے تو کیا دوسری یا تیسری  رکعت میں اس کی  اصلاح کرنے سے نماز ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟  جبکہ دارلعلوم کراچی کا فتوی یہ ہے کہ اصلاح فورا کی  جائے تو نماز صحیح ہو جائے گی ورنہ بعد یعنی دوسری اور تیسری رکعت میں اصلاح معتبر نہیں ہوگی تب بھی نماز فاسد ہوگی۔ جس کی دلیل درج ذیل جزئیہ سے دیتے ہیں:

"وفي فتاوى قاضي خان: إذا أراد أن يقرأ كلمة فجرى على لسانه شطر كلمة فرجع وقرأ الأولى أو ركع ولم يتمها إن كان شطر كلمة لو أتمها لا تفسد صلاته لا تفسد وإن كان لو أتمها تفسد تفسد، وللشطر حكم الكل وهو الصحيح انتهى."

( فتح القدير للكمال ابن الهمام ج:1ص: 324 )

حالانکہ فتاوی دارلعلوم زکریا میں مفتی رضاء الحق صاحب دوسری اور تیسری رکعت میں اصلاح کرنے سے بھی نماز کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔

براہ کرام اس کا حل بیان فرمائیں۔

جواب

واضح  رہے کہ قراءت کے دوران ایسی غلطی کا واقع ہونا جس سے معنوی تغیر لازم آتا ہو، اس سلسلہ میں فقہاء کرام کی آراء  مختلف ہیں، ایک طبقہ نماز کے فاسد ہونے کا قائل ہے، خواہ اس غلطی کی اصلاح  بھی کرلی جائے، جبکہ فقہاء  کرام کا دوسرا طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر  ایسی غلطی کے بعد اس کی اصلاح کر لی جائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی، کیوں عربی زبان و معانی قرآنی سے نا واقفیت  کا ابتلاء عام ہے، پس  غلطی کی اصلاح کے باوجود نماز کو فاسد قرار دینے  میں حرج  ہے، لہذا ضرورةً   نماز کو درست قرار دیا جائے گا،  متاخرین  کا فتوی اسی دوسرے قول پر ہے، پس  " الضرورة تقدر بقدر الضرورة " کے ضابطہ کی بنیاد پر  مقتدی کے لقمہ دینے  سے یا از خود یاد آنے پر اس غلطی کی اصلاح  اسی رکعت میں کرلی جائے  تو نماز  درست ہوجائے گی،  اعادہ لازم نہیں ہوگا  اور اگر اس  غلطی  کی اصلاح  نہیں کی ، یا اس رکعت کے بعد  کسی اور رکعت میں    کی، تو  نماز نہیں ہوئی، دوبارہ  نماز ادا کرنا لازم ہوگا۔

ملحوظ  رہے کہ نماز کی تمام ركعات  جداگانہ حیثیت  رکھتی  ہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر ایک  رکعت میں کوئی رکن مثلا  ایک سجدہ رہ گیا، قراءت رہ گئی، تو  کسی اور  رکعت میں  مذکورہ  سجدہ کرنا، یا قراءت  کرنا اس وقت تک کافی نہیں ہوتا، جب تک کہ آخر میں سجدہ سہو نہ کر لیا جائے، پس اگر تمام رکعات  ایک محل ہوتیں تو ایسی صورت میں سجدہ سہو لازم نہ ہوتا۔

قراءت میں تغیر فاحش  واقع ہونے کی صورت میں اصلاح کے حوالہ سے فقہائے کرام کی تصریحات "ثم أعادہ و قرأ صحيحًا / ثم رجع و قرأ صحيحًا" اس بات کی طرف مشیر ہیں کہ غلطی کی اصلاح  اسی رکعت میں کی جائے،  پس اگر کسی بھی رکعت میں اصلاح کافی ہوتی، تو فقہائے  کرام کی جانب سے تصریح  ہوتی۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال: اگر کسے " اما من ثقلت موازینه فامه هاویه" خواندہ فی الفور صحیحش نمودہ  نماز ادا  کرد، نمازش صحیحش  باشد یا نہ؟

جواب:  "في العالمگیریة: ذكر في الفوائد لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة، وكذلك الإعراب" ، قلت وکذا سمعت شیخي مولانا محمد یعقوب ؒ ، پس بنا علیہ ایں کس نماز صحیح باشد۔"

(  باب القرأت،  زلة  قاری کے تدارک کے بعد  صحت صلاة کا حکم، ١ /  ٥٨٧ ، ط: زکریابک ڈپو، انڈیا)

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"ذكر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة وكذلك الإعراب

(كتاب الصلاة، الفصل الخامس فی زلة القاري، ١ / ٨٢ ط: دار الفكر)

 حاشية الطحطاويعلی الدرمیں ہے:

"وفي المضمرات  : قرأ في الصلاة بخطأٍ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة".

( كتاب الصلاة، باب مایفسد الصلاۃ، کتاب الصلاۃ، ١ / ٢٦٧، ط: مكتبة رشدية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501100835

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں