بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قیمتی پتھر نکالنے کے لیے پرانی قبریں کھودنے کا حکم


سوال

روایتی طورپر کافروں کی قبریں سمجھ کے ہزاروں سال پرانی قبریں کھود کے ان سے قیمتی پتھر اور جواہرات نکالا جاتا ہے اکثر قبروں میں انسان کا ڈھانچہ مکمل طور پر  مٹی بن جاتا،  لیکن کچھ ایسی قبریں بھی ہوتی ہیں جس میں انسان کی ہڈیاں بھی نکلتی ہیں،  کیا ایسی قبریں کھود کے قیمتی چیزیں نکلنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میت کو قبر میں دفنانے کے بعد کسی شرعی ضرورت کے بغیر قبر کو کھولنا جائز نہیں ہے، ، اور شرعی ضرورت سے مراد ایسی ضرورت ہو کہ جس سے بندوں کا حق متعلق ہو، مثلاً قبر میں میت کے ساتھ واقعی کسی کا مال یا سامان بھی دفن ہوگیا ہو تو قبر کو کھود کر مال اور سامان نکالنا جائز ہے، لیکن اگر قبر میں مال کا ہونا یقینی نہ ہو یا صاحبِ حق کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ نہ ہو تو صرف خزانے یا قیمتی پتھر اور جواہرات   کے احتمال کی وجہ سے قبریں کھودنا جائز نہیں ہے، یہ میت اور قبر کی بے حرمتی ہے۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ   میں پرانی قبروں کو قیمتی پتھر اور جواہرات نکالنے کے لیےکھودنا جائز نہیں ہے، چاہے وہ کفار ہی  کی کیوں نہ ہوں۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح    میں ہے:

"ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن  غيره في قبره ولا يجوز كسر عظامه ولا تحويلها ...ولو كان ذميا ولا ينبش وإن طال الزمان وأما أهل الحرب فلا بأس بنبشهم إن احتيج إليه ولو كان ذميا" في التتارخانيةا مقابر أهل الذمة لا تنبش وإن طال الزمن لأنهم أتباع المسلمين أحياء وأمواتا بخلاف أهل الحرب إذا احتيج إلى نبشهم فلا بأس به."

(كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في حملها و دفنها، ص: 612 ، 613، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" قال في الحلية: وخصوصاً إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداءً في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلاً عن كون ذلك ونحوه مبيحاً للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك ."

(کتاب الصلوة، باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:233، ط:سعيد)

 فتاوی تاتارخانیہ میں ہے :

"إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين، و يوجد موضع فارغ يكره ذلك."

(کتاب الجنائز، باب القبر و الدفن، ج: 3، ص: 75،ط: رشیدیة)

فتاویٰ  ہندیہ میں ہے :

"سئل القاضی الامام شمس الائمة محمود الاوزجندی عن المقبرۃ فی القری اذا اندرست و لم یبق فیھا اثر الموتی لا العظم و لا غیرہ ھل یجوز زرعھا قابل واستغلالھا قال: لا،  ولھا کم المقبرۃ کذا فی المحیظ فلو کان فیھا حشیش یحش و یرسل الدوابُّ فیھا کذا فی البحر الرائق..."الميت ‌بعد ‌ما دفن بمدة طويلة أو قليلة لا يسع إخراجه من غير عذر ويجوز إخراجه بالعذر، والعذر أن يظهر أن الأرض مغصوبة أو أخذها الشفيع بالشفعة، كذا في الواقعات الحسامية."

(کتاب الوقف، الباب الثانی عشر فی الرباطات و المقابر..،  ج:2، ص: 469،  ط:دارالفکر بیروت)

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"(قال): وإن سقط شيء من متاع القوم في القبر فلا بأس بأن يحفروا التراب في ذلك الموضع ليخرجوا متاعهم من غير أن ينبش الميت لأن لمال المسلم حرمة وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن إضاعة المال، وفي إبقاء المتاع في القبر إضاعة المال وقد صح في الحديث أن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه سقط خاتمه في قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فما زال بالصحابة حتى رفع اللبن وأخذ خاتمه وقبل بين عيني رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم كان يفتخر بذلك ويقول: أنا آخركم عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الصلوة، باب غسل الميت، ج:2، ص:74، ط:دار المعرفة - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں