بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قیمت کی ادائیگی میں کی تاخیر کی وجہ سےمالی جرمانہ لگاناجائز نہیں۔


سوال

ہماری ایک مشترکہ زمین ہے ، جس میں تین فریق شریک ہیں،  شرکاء نے یہ مشترکہ زمین فروخت کی اور ایک اسٹامپ پیپر تحریر کیا، جس میں بطور بیعانہ کچھ رقم ان شرکاء ( بیچنے  والوں کو )  کو دے دی اور ہر شریک  کو کچھ نہ کچھ رقم مل گئی اور یہ زمین 2018 میں فروخت کی  تھی اور اسٹامپ پیپر میں  لکھا گیاکہ بقایا ساری  رقم 2019 میں ادا کروں گا ، لیکن وہ رقم ادا نہیں کی ، درمیان میں کچھ جھگڑ اہوا لیکن اس جھگڑے  کو ختم کیا گیا ، اب  ان شرکاء میں سے ایک شریک  کو اس کے حصے کی رقم 2020 میں ادا کی گئی ، دوسرے شریک  کو وہ رقم 2020  میں بھی اد انہیں کی گئی، دوسرے شریک    نے ان پر کیس کیا ، کیس چلتے چلتے آخر میں ان سے صلح کی ، اپنی اصل رقم کے علاوہ  ان کو چوبیس لاکھ روپے زیادہ دیے، تیسرے شریک کے ساتھ ٹال مٹول کرتارہا کہ مین نے آپ کی  رقم دے دی ہے ، آخر تیسرے  شریک  نے ان پر کیس کیا کہ ہمیں آپ کی طرف سے پوری رقم نہیں ملی  ہے ، ہم اپنے حصے کی زمین واپس کریں گے ، درمیان میں پہلے  شریک  نے ان  سے کہا  کہ ہم  کیس ختم کردیں گے ، آپ تیسرے شریک کو چوبیس  لاکھ روپے  اپنی  اصل رقم سے زیادہ دے دیں ، کیوں کہ اس میں تین سال کا عرصہ گزرچکا ہے ، اس پر وہ راضی ہوا، اب  آپ حضر ات ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ یہ چوبیس  لاکھ روپیہ لینا ہمارے لیے صحیح ہے یانہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب خریدار اور بیچنے والے کے درمیان  زمین کی  بیع ( خرید وفروخت ) کا معاملہ ہواتھا، اور معاہد ہ  میں یہ   طے ہواتھا کہ  بقایا رقم کی ادائیگی2019 میں  ہوگی ،لیکن مشتری ( خریدار ) نے مقرر ہ  وقت پر بقیہ  رقم  ادا نہیں  کی تو  یہ تاخیر اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کی ہو تو پھر وہ گنا ہ گار نہیں ہوگا، بصورت دیگر تاخیر کرنے پر گناہ گار ہوگا،تاہم اس تاخیر کی وجہ سے  دو نوں  شریکوں   میں سے ہرایک کا خریدار سے چوبیس لاکھ روپے بطور جرمانہ اضافی رقم  لینا شرعاجائز نہیں ، بلکہ حرام ہے،البتہ اگرخریدنے والے نے  یہ چوبیس لاکھ روپے بطور جرمانہ نہیں، بلکہ بغیر کسی جبر کے اپنی خوشی سے اداکیے ہے تو پھر دونوں شریکوں کےلیے مذکورہ رقم کالینا جائزہے۔ 

 شرح المجلۃ  للرستم باز میں ہے :

"البیع مع تأجیل الثمن و تقسیطه صحیح ... یلزم أن تکون المدة معلومةً في البیع بالتأجیل والتقسیط أی أنه یلزم أن یکون الأ جل معلوم الوقت عند کلا العاقدین ."

( کتاب البیوع،الفصل الثانی فی بیان المسائل المتعلقۃ بالنسیئۃ والتاجیل،المادۃ 245، 246 ،1/ 100ط: رشدية )

  ردالمحتار میں ہے :

"إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحدبغير سبب شرعي ...والحاصل أن المذهبعدم التعزيربأخذ المال."

(کتاب الحدود،باب التعزیر،4/ 61۔62،ط: سعید)

شرح صحیح البخاری لابن بطال میں ہے :

"قوله: (خيركم أحسنكم قضاء) ، فجاء الترغيب فى كلا الوجهين فى حسن التقاضى لرب الدين وفى حسن القضاء للذى عليه الدين، كل قد رغب فى الأخذ بأرفع الأحوال، وترك المشاحة فى القضاء والاقتضاء، واستعمال مكارم الأخلاق فى البيع والشراء والأخذ والإعطاء."

(باب حسن التقاضی،كتاب الاستقراض وأداء الديون،والحجر،والتفليس،6 /517،ط:سعید)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال:جاءرجل يتقاضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعيرا، فقال: " أعطوه سنا فوق سنه، وقال: «خيركم أحسنكم قضاء."

(باب من استسلف شيئا فقضى خيرا منه،وخيركم أحسنكم قضاء،باب من استسلف شيئا فقضى خيرا منه،وخيركم أحسنكم قضاء،3 /1255،ط: دار إحياء التراث العربي)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(ويجوز للمشتري أن يزيد البائع في الثمن) ولو من غير جنسه، في المجلس وبعده."

( کتاب البیوع،باب المرابحة والتولية،2 /36،ط: المكتبة العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144305100802

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں