بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قیمہ مشین میں رہ جانے والے قیمہ کو استعمال کرنے کا حکم


سوال

میں نے قیمہ کی مشین لگائی اور بقرعید کے دنوں میں قیمہ کا کام کرتا تھا، سوال یہ ہے کہ کوئی بندہ گوشت قیمہ بنانے کے لیے لاتا تو قیمہ پیسنے کے بعد تھوڑا بہت گوشت جو کہ مشین کےاندر رہ جاتا تھا ، اس کا کیا حکم ہے ؟ آیا مشین کھول کر اس کے پرزوں پر لگاہوا یا سائیڈوں پر چپکا ہوا گوشت بھی اس کو واپس کرنا ضروری ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گوشت کا قیمہ بنانے کے بعد قیمہ مشین میں رہ جانے والا قیمہ اگر قلیل مقدار میں ہے بایں طور کہ وہ مقدار باآسانی باہر نہیں نکلتی، بلکہ اس کے نکالنے کے  لیے مشین کو کھولنا پڑتا ہےاور  خریدار اس کو چھوڑدیتے ہیں  اور اس کو لے جانے کا اہتمام نہیں کرتےتو یہ عذر ہے اس پر شرعاً گناہ نہیں، اور اگر ایسی صورت نہیں، بلکہ مشین کو چند لمحے  چلانے سے وہ باہر  آجاتا  تو پھر  کچھ دیر  چلاکر ان کی امانت ان کے سپرد کردینا چاہیے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود  میں ہے:

قال السرخسي في "مبسوطه": ثم ما يجده نوعان: أحدهما: ما يعلم أن مالكه لا يطلبه كقشور الرمان والنوى، والثاني: ما يعلم أن مالكه يطلبه، فالنوع الأول له أن يأخذه وينتفع به،وأما النوع الثاني فهو ما يعلم أن صاحبه يطلبه، فمن يرفعه فعليه أن يحفظه ويعرِّفه ليوصله إلى صاحبه، انتهى ملخصًا.

(كتاب اللقطة، ج:6، ص:610، ط:مركز النخب العلمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "«ألا لا تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى ".

(" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه ("لايحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى ". 

(باب الغصب والعاریۃ، ج:5، ص:1974، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں