بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قلت و کثرتِ طعام سے متعلق دو روایتوں کی تحقیق


سوال

ایک حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فاقے کی حالت میں رہتے تھےبغیر ناداری کے،  یعنی:ایسا بھی ہوتا تھا کہ کھانا موجود ہوتا تھا،   پھربھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کم تناول فرماتے تھے، اس لیے کہ بھوکے رہنے سےانوارکی کثرت ہوتی تھی۔

اور دوسری حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دنیا میں جولوگ بھوکےرہنے والے ہیں،آخرت میں وہی لوگ پیٹ بھرنے والے ہیں۔ حق تعالی شانہ کو وہ شخص بہت ناپسند ہے کہ جو اتنا کھائے کہ بدہضمی ہوجائے۔

جواب

۱- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فاقہ اختیاری تھا، یہ  بات امام غزالی رحمہ اللہ (  505 ھ) نے  إحياء علوم الدين  میں (کتاب کسر الشہوتین میں) لکھی ہے، حافظ ابو الفضل زین الدین عبد الرحيم  بن الحسين عراقی رحمہ اللہ ( 806 ھ) اس کی تخریج میں فرماتے ہیں کہ اس مضمون کی روایت کو  امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الإيمان   میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ: اگر ہم سیر ہوکر کھانا کھانا چاہتے تو کرسکتے تھے، لیکن   رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر دوسروں لوگوں کو ترجیح دیتے تھے۔حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ روایت معضل (ضعیف کی ایک قسم) ہے۔

اور یہ بات کہ بھوک انوارات کی کثرت  کا سبب ہے،  اس قسم کا مضمون ایک دوسری حدیث سے ثابت ہوتا ہے جس کو حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ ( 571ھ)نے   تاریخ دمشق  میں نقل کیا ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حکمت کا نور ، بھوک میں ہے ۔۔۔ اورپیٹ کو سیر مت کیا کرو،   ورنہ  تمہارے سینوں سے حکمت کا نور اور روشنی  بجھ جائے گی۔ امام دار قطنی رحمہ اللہ (ت: 385ھ)نے الغرائب والأفراد  میں اس  روایت کو غریب کہا ہے۔ 

إتحاف السادۃ المتقین میں ہے:

"و في الخبر: أن النبي صلّى الله عليه وسلم كان يجوع من غير عوز، أي: مختار له)...قال العراقي: رواه البيهقي في الشعب من حديث عائشة قالت: لو شئنا أن نشبع لشبعنا، و لكن محمداً صلّى الله عليه وسلم كان يؤثر على نفسه. وإسناده معضل."

(إتحاف السادة المتقين: كتاب كسر الشهوتين (9/ 9)، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نور الحكمة الجوع، ورأس الدين ترك الدنيا، والقربة إلى الله حب المساكين والدنو منهم، والبعد من الله الذي قوي به على المعاصي الشبع، فلا تشبعوا بطونكم، فيطفئ نور الحكمة من صدوركم؛ فإن الحكمة تسطع في القلب مثل السراج."

(أخرجه ابن عساكر في تاريخه في ترجمة «زيد بن عبد الله بن محمد أبي الحسين التنوخي البلوطي» (19/ 447)، رقم الترجمة (3040)، ط. دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، 1415هـ =1995م)

أطراف الغرائب والأفراد  میں ہے:

"حديث: نور الحكمة الجوع ... الحديث. غريب من حديث مكحول الدمشقي عن أبي هريرة ما كتبته إلا عن أبي بكر بن أبي شيبة عن عبيدة بن عبيد أبي المضاء عن يحيى بن حسان عن صالح بن عبد الكريم مكحول."

(أطراف الغرائب والأفراد من حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم للإمام الدارقطني: باب من اشتهر بالكنى (5/ 270، 271) برقم (5398)، ط. دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة الأولى:1419 هـ =1998م)

۲-  یہ حدیث نہیں ، امام غزالی رحمہ اللہ کا کلام ہے، لیکن احادیث سے ماخوذ ہے،  اور اس کا ماخذ  دوروایات  ہیں:

پہلی روایت :  "دنیا میں جولوگ بھوکےرہنے والے ہیں،آخرت میں وہی لوگ پیٹ بھرنے والے ہیں"۔ 

حافظ عراقی  فرماتے ہیں کہ اس کو  امام طبرانی  رحمہ اللہ( 360ھ) نے (المعجم الكبير )میں اور علامہ ابو نعیم اصبھانی ( 430 ھ)نے حلیۃ الأولياء  میں   ضعیف  سند کے ساتھ نقل کیا ہے،   لیکن علامہ مرتضی زبیدی رحمہ اللہ  (1205 ھ)  فرماتے ہیں کہ علامہ منذری رحمہ اللہ نے (الترغيب والترهيب میں) اس  روایت کو حسن قرار دیا ہے، اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں یحیی بن سلیمان قرشی  ہے اور اس  کے بارے میں کلام ہے۔ 

دوسری روایت: "حق تعالی شانہ کو وہ شخص بہت ناپسند ہے کہ جو اتنا کھائے کہ بدہضمی ہوجائے"۔

علامہ مرتضى زبیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت کعب کےاس قول سے ماخوذ ہے کہ: اللہ تعالی بہت گوشت والے گھر کو پسند نہیں کرتا۔ اس کو علامہ بیہقی رحمہ اللہ (458ھ)  نے شعب الإيمان میں نکالا ہے، علامہ زبیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لَـحِمِين (بہت گوشت والے لوگ)  سے بہت گوشت کھانے والے لوگ  مراد ہیں کہ بہت گوشت کھانے کی وجہ سے بدہضمی میں مبتلا ہوجا ئے۔

المغني عن حمل الأسفار  میں ہے:

"حديث: (إن أهل الجوع في الدنيا هم أهل الشبع في الآخرة ) ( 3 / 80 ) الطبراني وأبو نعيم في الحلية من حديث ابن عباس بإسناد ضعيف".

(المغني عن حمل الأسفارللعراقي، كتاب كسر الشهوتين (2/ 753) برقم  (2762)، ط. مكتبة طبرية، الرياض، سنة الطبعة: 1415هـ =1995م)

إتحاف السادۃ المتقین میں ہے:

"(قال صلّى الله عليه وسلم: إن أهل الجوع في الدنيا هم أهل الشبع في الآخرة، وإن أبغض الناس إلى الله تعالى المتخمون الملآى)، أي:الذين يملؤون بطونهم من الطعام حتى يتخمون، والتخمة فساد الطعام في المعدة.

قال العراقي: رواه الطبراني في الكبير، وأبو نعيم في الحلية من حديث ابن عباس بسند ضعيف اهـ.

قلت: لفظ الطبراني: إن أهل الشبع في الدنيا هم أهل الجوع غداً في الآخرة. قال المنذري: إسناده حسن، وقال الهيثمي: فيه يحيى بن سليمان القرشي، فيه مقال ... وتقدم عن كعب: إن الله يبغض أهل البيت اللحمين. أخرجه البيهقي في الشعب. وهم المكثرون في أكل اللحم حتى يتخموا."

(ٳتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين، كتاب كسر الشهوتين (9/ 17)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں