بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبلہ سے 23 ڈگری پر بیڈ کی پائنتی ہونے کی صورت اس طرف پاؤں کرکے سونا


سوال

 ہم کل ہی نئے فلیٹ میں منتقل ہوئے ہیں،  میرے بیڈ روم کی ساخت اور سمت کچھ اس طرح کی ہے کہ بیڈ کی پائنتی قبلہ رخ سے 23 ڈگری کے فرق پر ہے۔ یعنی بیڈ کی پائنتی کی طرف سے قبلہ 23 ڈگری دائیں جانب ہے۔ ایسی صورت میں بیڈ کو معمول کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے یا احتیاط اور ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ہم پائنتی کی طرف سر اور سرہانے کی طرف پاؤں کر کے سویا کریں۔

جواب

واضح رہے کہ  قبلہ  کی طرف پاؤ ں پھیلانا ادب کے خلاف   ہے، اگر بلا عذر قصدًا وارادۃً ایسا کیا جائے تو مکروہ  ہے، اس سے بچنا چاہئے۔نیز جو لوگ بیت اللہ سے دور ہیں، ان کے لیے جس طرح نماز میں کعبہ کی سمت و جہت کی طرف رخ کرنا کافی ہے، اسی طرح   ان کے لیے   کعبہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرکے  قضاء حاجت کرنے میں ، کعبہ کی طرف پاؤں پھیلانے وغیرہ میں  بھی جہت ِ کعبہ کا اعتبار ہے،   اور علمائے ہیئت وریاضی نے   قبلہ کی دونوں طرف  45 ڈگری کے اندر  کو جہت ِ قبلہ میں شمار کیا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کے بیڈ کی پائنتی  اگر قبلہ  سے 23 ڈگری کے فرق پر ہے تو  بیڈ کی پائنتی کی طرف پاؤں کرکے سونا مکروہ ہے، ایسی صورت میں  بیڈ کی پائنتی کو قبلہ سے 45 ڈگری سے زیادہ   منحرف کردیا جائے یا   بیڈ کی پائنتی کی طرف سر، اور سرہانے کی پاؤں رکھ کر سویا جائے۔

فتاوی شامی   میں ہے:

"(ويكره) تحريماً (استقبال القبلة بالفرج) ولو (في الخلاء) بالمد: بيت التغوط، وكذا استدبارها (في الأصح كما كره) لبالغ (إمساك صبي) ليبول (نحوها، و) كما كره (مد رجليه في نوم أو غيره إليها) أي عمداً لأنه إساءة أدب، قاله منلا ناكير، (أو إلى مصحف أو شيء من الكتب الشرعية إلا أن يكون على موضع مرتفع عن المحاذاة) فلايكره، قاله الكمال.

 (قوله :استقبال القبلة بالفرج) يعم قبل الرجل والمرأة. والظاهر أن المراد بالقبلة جهتها كما في الصلاة، وهو ظاهر الحديث المار وأن التقييد بالفرج يفيد ما صرح به الشافعية أنه لو استقبلها بصدره وحول ذكره عنها لم يكره، بخلاف عكسه كما قدمناه في باب الاستنجاء وتقدم هناك أن المكروه الاستقبال أو الاستدبار لأجل بول أو غائط، فلو للاستنجاء لم يكره: أي تحريما.

(قوله: مد رجليه) أو رجل واحدة ومثل البالغ الصبي في الحكم المذكور ط (قوله: أي عمداً) أي من غير عذر أما بالعذر أو السهو فلا ط ... (قوله: لأنه إساءة أدب) أفاد أن الكراهة تنزيهية ط، لكن قدمنا عن الرحمتي في باب الاستنجاء أنه سيأتي أنه بمد الرجل إليها ترد شهادته. قال: وهذا يقتضي التحريم فليحرر، (قوله: إلا أن يكون) ما ذكر من المصحف والكتب؛ أما القبلة فهي إلى عنان السماء."

(1/  655،  كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، مطلب في الاحكام المساجد، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310101408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں