بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبلہ کی جانب تھوکنے کا حکم اور اس سے متعلق احادیث مبارکہ


سوال

قبلہ کی طرف منہ کرکے تھوکنے والے شخص کے بارے میں کون سی احادیث ہیں؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

قبلہ کی جانب تھوکنا سخت بے ادبی اور ناجائز فعل ہے، ایسے شخص کے بارے میں احادیث میں وعید وارد ہوئی ہے، اور ایسے ایک شخص کو آپﷺ نے امامت سے بھی معزول فرمادیا تھا، لہٰذا اس فعل سے اجتناب لازم ہے۔

سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن زر بن حبيش عن حذيفة، أظنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من تفل تجاه القبلة جاء يوم القيامة تفله بين عينيه، ومن أكل من هذه البقلة الخبيثة فلا يقربن مسجدنا» ثلاثًا."

(كتاب الأطعمة، باب في أكل الثوم، ٣/ ٣٦٠، الرقم: ٣٨٢٤، ط: المكتبة العصرية)

" يعني سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے راوی کا خیال ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ "جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا اور جو شخص یہ ناپسندیدہ سبزی (لہسن یا پیاز) کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ پھٹکے"،  آپ نے یہ بات تین  دفعہ ارشاد  فرمائی ۔"

اعلاء السنن میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه قال : أمر رسول صلي الله عليه وسلم رجلا يصلي بالناس الظهر، فتفل في القبلة وهو يصلي للناس، فلما كانت صلاةالعصر أرسل إلي آخر، فأشفق الرجل الأول، فجاء إلى النبي صلي الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! انزل في شيء؟ قال: لا! ولكنك تفلت بين يديك، وأنت قائم تؤم الناس، فآذيت الله والملائكة." رواه الطبراني."

(كتاب الصلوة، باب صفات الإمام، ٤/ ٢٢٧، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

"طبرانی کی ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی شخص کو ظہر کی نماز پڑھانے کے لیے بھیجا، تو اس شخص نے نماز پڑھانے کے دوران قبلہ کی طرف  تھوک پھینکا، عصر کی نمازکے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے شخص کو نماز پڑھانے بھیجا،  پہلے شخص کو خوف محسوس ہوا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا "یا رسول اللہ! کیا میرے متعلق کوئی وحی نازل ہوئی ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں! البتہ تم نے اپنے سامنے تھوک پھینکا  جبکہ تم  لوگوں کو نماز پڑھارہے تھے، تم نے اللہ اور فرشتوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔"

بخاری شریف کی روایت میں ہے :

"حدثنا ‌قتيبة قال: حدثنا ‌إسماعيل بن جعفر، عن ‌حميد، عن ‌أنس : أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ‌نخامة ‌في ‌القبلة، فشق ذلك عليه، حتى رئي في وجهه، فقام فحكه بيده، فقال: إن أحدكم إذا قام في صلاته فإنه يناجي ربه، أو، إن ربه بينه وبين القبلة، فلا يبزقن أحدكم قبل قبلته، ولكن عن يساره أو تحت قدميه. ثم أخذ طرف ردائه، فبصق فيه، ثم رد بعضه على بعض، فقال: أو يفعل هكذا."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب حك البزاق باليد من المسجد، ١/ ٩٠، الرقم: ٤٠٥، ط: دارطوق النجاة)

"ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی  کریم صلی اللہ علیہ  وسلم نے قبلہ کی جانب میں کچھ تھوک دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار ہوا، یہاں تک کہ غصہ کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں ظاہر ہوا، چناں چہ آپ ﷺ کھڑے ہو گئے اور اس کو اپنے ہاتھ سے صاف کردیا، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جب اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے، تو وہ اپنے پرودگار سے مناجات کرتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس کا پرودگار اس کے اور قبلہ کے درمیان میں ہے؛ لہذا اسے قبلہ کے سامنے نہ تھوکنا چاہیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ لیا اور اس میں تھوک کر اسے مل ڈالا اور فرمایا کہ یا اس طرح کرے۔"

عمدة القاری میں ہے:

"وقال القرطبي: الحديث دال على تحريم البصاق في القبلة، فإن الدفن لايكفيه. قيل: هو كما قال. وقيل: دفنه كفارته. وقيل: النهي فيه للتنزيه، والأصح أنه للتحريم، وفي (صحيحي) ابن خزيمة وابن حبان، من حديث حذيفة مرفوعاً: (من تفل تجاه القبلة جاء يوم القيامة وتفله بين عينيه). وفي رواية لابن خزيمة، من حديث ابن عمر، مرفوعا: (يبعث صاحب النخامة في القبلة يوم القيامة وهي في وجهه) . وروى أبو داود من حديث أبي سهلة السائب بن خلاد، قال أحمد، من أصحاب النبي: (إن رجلاً أم قوماً فبصق في القبلة و رسول الله ينظر، فقال رسول الله حين فرغ: لايصلي لكم، فأراد بعد ذلك أن يصلي لهم فمنعوه وأخبروه بقول رسول الله، فذكر ذلك لرسول الله فقال: نعم، وحسبت أنه قال: إنك آذيت الله ورسوله). والمعنى: أنه فعل فعلاً لايرضی الله و رسوله. وروى أبو داود أيضاً من حديث جابر أنه قال: (أتانا رسول الله في مسجدنا هذا، وفي يده عرجون ابن طاب)، ذكرناه في أول الباب، وفي رواية مسلم: (ما بال أحدكم يقوم يستقبل ربه، عز وجل، فيتنخع أمامه، أيحب أن يستقبل فيتنخع في وجهه؟) الحديث."

(كتاب الصلاة، باب حك البزاق باليد من المسجد، ٤/ ١٥٠، ط: دارإحياء التراث العربي)

فتح الباری میں ہے :

"وهذا التعليل يدل على أن البزاق في القبلة حرام سواء كان في المسجد أم لا، ولا سيما من المصلي فلايجري فيه الخلاف في أن كراهية البزاق في المسجد هل هي للتنزيه أو للتحريم، وفي صحيحي ابن خزيمة و ابن حبان من حديث حذيفة مرفوعًا: من تفل تجاه القبلة جاء يوم القيامة وتفله بين عينيه."

(كتاب الصلاة، باب حك البزاق باليد من المسجد، ١/ ٥٠٨، ط: دارالمعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں