بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبلہ کی طرف پیر کرنا


سوال

قبلہ کے طرف پاؤں بچھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

قبلہ کی طرف پاؤ ں پھیلانا خلافِ ادب ہے، اگر بلا عذر قصداً واراداۃً ایسا کیا جائے تو مکروہِ تحریمی ہے، اور مکروہِ تحریمی کا ارتکاب گناہ ہے، یہاں تک کہ فقہاء  کرام نے  قصداً  کعبۃ اللہ کی طرف پاؤں پھیلانے والے کی گواہی تک کو قبول نہیں کیا، جب کہ گواہی صرف اسی عمل کے ارتکاب سے مردود ہوتی ہے جو عمل فسق کے دائرہ میں داخل ہوتا ہو، البتہ اگر قصداً نہ ہو تو پھر گناہ نہیں، لیکن خلافِ ادب ضرور ہے۔

"الدر المختار مع رد المحتار "میں ہے:

"(ويكره) تحريما (استقبال القبلة بالفرج .... و) كما كره (‌مد ‌رجليه في نوم أو غيره إليها) أي عمدا لأنه إساءة أدب قاله منلا ناكير (أو إلى مصحف أو شيء من الكتب الشرعية إلا أن يكون على موضع مرتفع عن  المحاذاة) فلا يكره قاله الكمال.

قوله ‌مد ‌رجليه) أو رجل واحدة ومثل البالغ الصبي في الحكم المذكور ط (قوله أي عمدا) أي من غير عذر أما بالعذر أو السهو فلا ط.

(قوله لأنه إساءة أدب) أفاد أن الكراهة تنزيهية ط، لكن قدمنا عن الرحمتي في باب الاستنجاء أنه سيأتي أنه بمد الرجل إليها ترد شهادته. قال: وهذا يقتضي التحريم فليحرر (قوله إلا أن يكون) ما ذكر من المصحف والكتب؛ أما القبلة فهي إلى عنان السماء."

(كتاب الصلاة، فروع، ج:1، ص:655، ط:سعيد) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں