بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی زکوۃ قرض دینے والے پر ہے نہ کہ مقروض پر


سوال

 ایک صاحب نے ہوٹل کرایہ پر رکھا ہے جس وقت ہوٹل رکھا اس وقت آدھا کام ہوا تھا ہوٹل تیار ہونے تک 3000000 (تیس لاکھ) خرچ ہوئے جس میں 300000(تین لاکھ ) ڈپازٹ کے اور 400000 (چار لاکھ) اسٹاک مال کے سوا 2300000(تیئیس لاکھ روپیہ)جو تعمیر،فرنیچر ،رنگ و روغن وغیرہ میں لگا ہے جو ہر مہینہ آدھے کرایہ کی شکل میں واپس (کرایہ دار کو ) کیا جائے گا تو کیا ان 2300000(تیئیس لاکھ) میں زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں ؟ جبکہ وہ قسط وار 9 سال 7 مہینہ میں واپس ہوگا ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کرایہ دار نےمالک کے حکم سے  ہوٹل کی تعمیر پر   رقم خرچ کی ہےیا قرض کہہ کر رقم خرچ کی ہے  اور مالک نے ہر ماہ آدھے کرایہ  کی صورت میں قرض  واپس کرنے کا معاہدہ کیا ہے تو یہ رقم کرایہ دار کی ملکیت ہے ،  اس کی زکوۃ اس کرایہ دار  پرہی   لازم ہوگی  نہ کہ ہوٹل کے مالک پر ، لیکن زکوۃ  کی ادائیگی کرایہ دار پر اس وقت واجب ہوگی جب وہ رقم اس کو وصول ہوگی، لیکن اگر  کرایہ دار  سالانہ  کل رقم کی زکوٰۃ پوری رقم وصول ہونے سے پہلے بھی ادا کرنا چاہےتو ادا کرسکتاہے،اور اگر ابھی گنجائش نہ ہو تو فی الحال پورے مال کی زکوٰۃ ادانہ کرے بلکہ جتنی رقم وصول ہو تی رہے اس کی زکوٰۃ اداکرتارہے اور اگر قرض کی رقم وصول ہونے میں ایک سے زائد سال گزرگئے تو رقم وصول ہونے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکوۃ بھی حساب کرکے ادا کرنا پڑے گی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو كان الدين على مقر مليء أو) على (معسر أو مفلس) أي محكوم بإفلاسه (أو) على (جاحد عليه بينة) وعن محمد لا زكاة، وهو الصحيح، ذكره ابن ملك وغيره لأن البينة قد لا تقبل (أو علم به قاض) سيجيء أن المفتى به عدم القضاء بعلم القاضي (فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى) وسنفصل الدين في زكاة المال."

(كتاب الزكاة ، 266/2 ، ط: سعيد)

و فيه أيضاّ:

"واعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم ."

"وعندهما الديون كلها سواء تجب زكاتها، ويؤدي متى قبض شيئا قليلا أو كثيرا إلا دين الكتابة والسعاية والدية في رواية بحر."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، 305/2 ،ط: سعيد)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"قرضہ کی زکوٰۃ بعد وصولی
ّ(سوال):قرضہ جو قابل وصول ہے اس پر بھی زکوٰۃ دی جاوے یا قرضہ کے وصول پر ؟ اور جو قرضہ فی الحال قابل وصول ہے لیکن شاید کچھ عرصہ کے بعد غیر قابل وصول ہوجاوے ، یا بعض قرضہ اقساط کے ساتھ وصول ہو اس کے واسطے کیا ارشاد ہے ؟
(جواب) :بعد وصولی قرضہ کے زکوٰۃ دینا واجب ہوتا ہے لیکن اگر قبل از وصول دے دی جاوے تو یہ بھی جائز ہے ۔ جوقرضہ اب قابل وصول ہے اور بعد میں شاید قابل وصول نہ رہے اس میں بھی یہی حکم ہے جو گزرا کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا واجب اسی وقت ہوتا ہے جب وصول ہوجاوے لیکن اگر فی الحال دے دے گا تب بھی درست ہے ۔ اور قرض اگر باقساط وصول ہو تو جس قدر وصول ہوتا جاوے اس کی زکوٰۃ ادا کرتا رہے او ر اگر ایک دفعہ کل کی زکوٰۃ دے دے خواہ پہلے یا پیچھے یہ بھی درست ہے ۔ فقط۔ "

(کتاب الزکوۃ،دوسراباب:زکوۃ کی ادائیگی،78/6،ط:دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في وجوب الزكاة في دين المرصد (قوله: كقرض) قلت: الظاهر أن منه مال المرصد المشهور في ديارنا؛ لأنه إذا أنفق المستأجر لدار الوقف على عمارتها الضرورية بأمر القاضي للضرورة الداعية إليه يكون بمنزلة استقراض المتولي من المستأجر، فإذا قبض ذلك كله أو أربعين درهما منه ولو باقتطاع ذلك من أجرة الدار تجب زكاته لما مضى من السنين والناس عنه غافلون."

(كتاب الزكاة،باب زكاة المال،305/2،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں