بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر فروخت کیے گئے فلیٹ/ دکانیں کسی دوسرے پر فروخت کرنے کا حکم


سوال

ایک پلاٹ ہم نے سن (2000) میں  خریدا تھا ، میں اور ہم پانچ شریک ہیں، اس پلاٹ پر ہم نے ایک سات منزلہ بلڈنگ تعمیر کی ہے، جس میں نیچے کچھ دکانیں ہیں اور اٹھائیس فلیٹ ہے، جو ہم نے قسطوں پر فروخت کیے ہیں، جس میں صرف ایک فلیٹ اور دو  دکانوں کی ادائیگی مکمل ہوچکی ہیں اور باقیوں کی تیس/ چالیس فیصد ادائیگی ہوچکی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم سب پارٹنر یہ بلڈنگ کسی تیسری پارٹی  کو فروخت کرنا چاہ رہے ہیں، تو اس کی کیا صورت ہوگی؟ جن لوگوں نے پیسے دیے ہیں ان کو کس طرح واپس کرنا ہوگا؟ یا ہم میں سے کوئی ایک پارٹنر اس کو لینا چاہے تو اس کی کیا صورت ہوگی، کیوں کہ جس وقت خریدا تھا اس وقت اس کی مالیت کم تھی اور اب اس کی مالیت زیادہ ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شراکت داروں نے پلاٹ پر بلڈنگ بناکر  اس میں موجود دکانیں/ فلیٹ قسطوں پر فروخت کردیئے ہیں تو قسطوں پر خریدنے والے اس بلڈنگ میں موجود فلیٹوں/دکانوں کےمالک بن گئےہیں، اب یہ بلڈنگ مذکورہ شراکت داروں کی ملکیت میں نہیں رہی، لہذا وہ یہ دکانیں اور فلیٹ نہ کسی تیسری پارٹی کو بلڈنگ فروخت کرسکتے ہیں اور نہ ہی  خریداروں کی رضامندی کے بغیر مذکورہ شراکت داروں میں سےکوئی شخص انہیں خریدسکتا ہے،البتہ اگر خریدار اور بیچنے والا اس معاملہ کو ختم کرنا چاہے تو اس کی گنجائش ہے، بیچنے والا خریدار کو اتنی ہی رقم واپس کرے جتنی اس نے لی تھی، اور اگر  قسطوں کی ادائیگی سے پہلے فروخت کرنے والافلیٹ یا دکان جتنے میں فروخت کی تھی اس سےزیادہ  یا برابر  قیمت پر خریدار سے خرید رہا ہے تو یہ صورت بھی جائز ہے، لیکن اگر وہ  قیمت کی ادائیگی سے پہلے طے شدہ قیمت سے کم پر بیچے تو ایسا کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"وحكمه ثبوت الملك.

و في الرد : (قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن، ووجوب استبراء الجارية على المشتري، وملك الاستمتاع بها، وثبوت الشفعة لو عقارا، وعتق المبيع لو محرما من البائع بحر، وصوابه من المشتري".

(کتاب البیوع، ج:4، ص:506، ط:ایج ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافا للشافعي

و في الرد : (قوله : وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئا وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لا يجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالا أو مؤجلا هداية، وقيد بقوله وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لا يجوز ولو من بائعه كما سيأتي في بابه، والمقصود بيان الفساد بالشراء بالأقل من الثمن الأول قال في البحر وشمل شراء الكل أو البعض (قوله بنفسه أو بوكيله) تنازع فيه كل من شراء وباع. قال في البحر: وأطلق فيما باع فشمل ما باعه بنفسه أو وكيله وما باعه أصالة أو وكالة كما شمل الشراء لنفسه أو لغيره إذا كان هو البائع اهـ. فأفاد أنه لو باع شيئا أصالة بنفسه أو وكيله أو وكالة عن غيره ليس له شراؤه بالأقل لا لنفسه ولا لغيره؛ لأن بيع وكيله بإذنه كبيعه بنفسه.

والوكيل بالبيع أصيل في حق الحقوق، فلا يصح شراؤه لنفسه؛ لأنه شراء البائع من وجه ولا لغيره؛ لأن الشراء واقع له من حيث الحقوق فكان هذا شراء ما باع لنفسه من وجه، كذا يفاد من الزيلعي أيضا (قوله من الذي اشتراه) متعلق بشراء، وخرج به ما لو باعه المشتري لرجل أو وهبه له أو أوصى له به ثم اشتراه البائع الأول من ذلك الرجل فإنه يجوز؛ لأن اختلاف سبب الملك كاختلاف العين زيلعي، ولو خرج عن ملك المشتري ثم عاد إليه بحكم ملك جديد كإقالة أو شراء أو هبة أو إرث فشراء البائع منه بالأقل جائز لا إن عاد إليه بما هو فسخ بخيار رؤية أو شرط قبل القبض أو بعده بحر عن السراج (قوله ولو حكما) تعميم لقوله من الذي اشتراه (قوله كوارثه) أي وارث المشتري: أي فلو اشترى من وارث مشتريه بأقل مما اشترى به المورث لم يجز لقيام الوارث مقام المورث بخلاف ما إذا اشترى وارث البائع بأقل مما باع به مورثه فإنه يجوز إن كان ممن تجوز شهادته له، والفرق أن وارث البائع إنما يقوم مقامه فيما يورث.

وهذا مما لا يورث، ووارث المشتري قام مقامه في ملك العين أفاده في البحر (قوله بالأقل من قدر الثمن الأول) وكالقدر الوصف، كما لو باع بألف سنة فاشتراه به إلى سنتين بحر (قوله قبل نقد كل الثمن الأول) قيد به؛ لأن بعده لا فساد، ولا يجوز قبل النقد، وإن بقي درهم. وفي القنية: لو قبض نصف الثمن ثم اشترى النصف بأقل من نصف الثمن لم يجز بحر قلت: وبه يظهر أن إدخال الشارح لفظة كل لا محل له؛ لأنه يفهم أن قبل نقد البعض لا يفسد وهو خلاف الواقع. والحاصل أن نقد كل الثمن شرط لصحة الشراء لا لفساده؛ لأنه يفسد قبل نقد الكل أو البعض. فتأمل".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:73، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں