بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قیمت کی زیادتی کی وجہ سے قربانی کی جانور میں کسی اور کو شریک کرنا


سوال

 ایک بیل میں تین حصہ دار شریک ہیں ، جس میں دو حصے نفلی ہو،اب زیادہ مالیت کی وجہ سے اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتے ہیں ،اب سوال یہ ہے کہ کیا  اس بیل  میں کسی اور کو شریک کرنا جائز ہے؟اگر جائز ہے تو بقیہ پیسوں کا حکم کیا ہوگا؟ 

جواب

واضح رہے کہ بڑ ے جانور مثلاً اونٹ گائے ،بیل وغیرہ میں  (چاہےقربانی واجب ہو یا نفل ) جانور ذبح ہونے سے پہلے سات آدمیوں تک شریک ہو سکتے ہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر شرکاء مالدار ہیں ،یعنی وہ نفلی قربانی کررہاہوں ، تو جانور ذبح ہونے سے پہلے کسی اور کو شریک کرسکتے ہیں چاہے خریدتے وقت کسی کو شریک کرنے کی نیت کی ہویانہیں ، لیکن اگر شرکاء میں سے کوئی غریب ہویعنی اس پر قربانی واجب نہیں تھی،  بل کہ وہ  نفلی قربانی کرتاہو، تو پھر اگر  جانور خریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی نیت کی ہو، تو شریک کرسکتے ہیں ورنہ نہیں،پھر  شریک کرنے کے بعدجانو ر کے کل رقم کو حصص کے تناسب سے تمام حصہ داروں پر برابر تقسیم کرنا ضروری ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة."

(کتاب الاضحیۃ،الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا،ج:5،ص:304،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

وفیہ ایضاً:

"ولو اشترى بقرة يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكما، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسرا، وإن كان فقيرا معسرا فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها."

(کتاب الاضحیة،الباب الثامن فیما یتعلق باالشرکة في الضحایا،ج:5،ص:304،ط:المطبعة الکبریٰ الامیریه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں