ایک شخص نے مکان خریدا اسی لاکھ میں ،اور اس رقم میں سے پانچ لاکھ ادا کر کے باقی رقم کے ادا کرنے کیلے چارمہینوں کی مہلت مانگی،تومالک مکان نے گھر حوالہ کردیا،اور کہا کہ چارمہینوں تک جب تم میرے مکان میں رہو گے، تو اس کا کرایہ دینا ہو گا، تو اس کایہ کرایہ لینا سود شمار ہو گا کہ نہیں؟
واضح رہے کہ صورتِ مسئولہ میں جب بیچنےوالے اورخریدار کے درمیان اسی لاکھ میں سوداہوچکا،اورخریدارنے گھر پرقبضہ بھی کرلیا،تو خریداراس گھرکامالک بن گیا،اوربیچنے والااگرنقد سوداہواہو تو نقد،اوراگر ادھارسوداہواہوتومدت کے آنے پرپیسوں کاحق داربن گیا؛ لہذااب پیسوں کی ادائیگی میں تاخیرکی وجہ سے ،بیچنے والے کوخریدارسے گھرکاکرایہ لینا ہر گز جائزنہیں ۔
تبیین الحقائق میں ہے:
"(ويلزم بإيجاب وقبول)(قوله في المتن ويلزم) أي ينعقد البيع انعقادا لازما. اهـ. عيني."
[كتاب البيوع،3/4، ط:المطبعة الكبري الأميرية]
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما الرابع، وهو شرائط اللزوم بعد الانعقاد والنفاذ فخلوه من الخيارات الأربعة المشهورة وباقي الخيارات الآتية في أول باب خيار الشرط."
[كتاب البيوع،مطلب شرائط البيع،505/4، ط:سعيد]
الاشباہ میں ہے:
"الديون تقضى بأمثالها."
[كتاب الوكالة، 214ط:دارالكتب العلمية]
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408101264
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن